بحالت جاہلیت مانی گئی نذر کو پورا کرنے کا مسئلہ
راوی:
وعن ابن عمر : أن عمر سأل النبي صلى الله عليه و سلم قال : " كنت نذرت في الجاهلية أن أعتكف ليلة في المسجد الحرام ؟ قال : " فأوف بنذرك "
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا کہ میں نے جاہلیت میں یہ نذر مانی تھی کہ ایک رات (اور ایک دن جیسا کہ دوسری روایت میں وضاحت ہے) مسجد حرام میں اعتکاف کروں گا (تو کیا وہ نذر پوری کرنی میرے لئے ضروری ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اپنی نذر پوری کرو۔ (بخاری ومسلم)
تشریح
جاہلیت ، اس حالت کو کہتے ہیں جس میں اہل عرب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت سے پہلے تھے بعض حضرات کہتے ہیں کہ جاہلیت سے مراد وہ حالت ہے جو اسلام کی تبلیغ عام اور اس کے ظہور سے پہلے تھی حاصل یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت اور اسلام کے ظہور سے قبل عرب میں جو معاشرہ تھا اسے جاہلیت اور اس وقت جو دور تھا اسے زمانہ جاہلیت کہا جاتا ہے۔
ارشاد گرامی اپنی نذر پوری کرو، میں یہ حکم بطور استحباب تھا اگر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسلام قبول کرنے سے قبل نذر مانی تھی اور اگر اسلام قبول کرنے کے بعد یہ نذر مانی تھی تو پھر یہ حکم بطور وجوب تھا۔
علامہ طیبی کے مطابق یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ بحالت جاہلیت مانی گئی نذر اسلام کے احکام کے موافق ہو گی تو اسلام قبول کرنے کے بعد اس نذر کو پورا کرنا واجب ہو گا، چنانچہ حضرت امام شافعی کا مسلک یہی ہے مگر حضرت امام اعظم ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ وہ نذر صحیح ہی نہیں ہو گی چہ جائیکہ اسلام کے بعد اس کا پورا کرنا ضروری ہو؟ امام اعظم کی دلیل فقہ کی کتابوں میں مذکور ہے، اس حدیث کے وہ وہی معنی مراد لیتے ہیں جو اوپر ذکر کئے گئے ہیں۔
اعتکاف واجب کے لئے روزہ شرط ہے
علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ اعتکاف کے صحیح ہونے کے لئے روزہ شرط نہیں ہے جیسا کہ حضرت امام شافعی کا مسلک ہے لیکن حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا مسلک بروایت ظاہر یہ ہے کہ نفل اعتکاف کے لئے تو روزہ شرط نہیں ہے لیکن اعتکاف واجب کے لئے واجب ہے، صاحبین کا بھی یہی قول ہے اور حنفیہ کے یہاں اسی پر فتویٰ ہے حضرت امام مالک اور ایک دوسری روایت کے مطابق حضرت امام اعظم بھی یہ فرماتے ہیں کہ مطلقاً اعتکاف کے لئے روزہ شرط ہے خواہ واجب ہو یا نفل۔
حنفیہ کی طرف سے اس حدیث کے بارہ میں کہا جاتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اعتکاف کے سلسلہ میں اس کے علاوہ جو اور روایتیں منقول ہیں ان میں اعتکاف کے ساتھ روزہ بھی ذکر ہے چنانچہ ابوداؤد، نسائی اور دارقطنی نے جو روایت نقل کی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جاہلیت میں اپنے اوپر یہ لازم کیا کہ ایک رات اور ایک دن یا صرف ایک دن کعبہ کے اندر اعتکاف کریں گے پھر جب انہوں نے اس سلسلہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اعتکاف کرو اور روزہ رکھو۔ یہ تو گویا اس حدیث کا جواب تھا جہاں تک حنفیہ کی دلیل کا تعلق ہے تو ابھی آگے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی ایک حدیث ولا اعتکاف الا بصوم آ رہی ہے جس سے یہ بات وضاحت کے ساتھ ثابت ہو جائے گی کہ اعتکاف واجب بغیر روزہ کے صحیح نہیں ہوتا، چنانچہ اگر کوئی شخص نذر مان کر صرف رات کے اعکاف کی نیت کرے تو وہ لغو سمجھی جائے گی کیونکہ رات روزے کا محل نہیں ہے ہاں اگر کسی نے یہ نذر مانی کہ میں رمضان میں اعتکاف کروں گا تو رمضان کے روزے اعتکاف کے صحیح ہونے کے لئے کافی ہو جائیں گے اسی طرح اگر کسی شخص نے نفل روزہ رکھا اور پھر اس دن اعتکاف کی نذر کی تو یہ صحیح نہیں ہو گا۔
اگر کسی شخص نے نذر مانی کہ فلاں رمضان میں اعتکاف کروں گا مگر اس نے اس متعین رمضان میں اعتکاف نہیں کیا تو اس کے لئے ضروری ہو گا کہ وہ بطور قضا دوسرے دنوں میں اعتکاف کرے اور مستقل طور پر اعتکاف کے لئے روزے رکھے، چنانچہ یہ قضا نہ کسی دوسرے رمضان میں صحیح ہو گی اور نہ ایسے دنوں میں جس میں کوئی اور واجب روزہ رکھ رہا ہو خواہ وہ واجب روزے رمضان کے قضا روزے ہوں کسی اور طرح کے۔
اگر کوئی شخص کئی دنوں کے اعتکاف کی نیت کرے تو ان دنوں کی راتوں کا اعتکاف بھی لازم ہو جاتا ہے اسی طرح دو دنوں کے اعکاف کی نذر ماننے سے ان کی دو راتوں کا اعتکاف بھی لازم ہو جاتا ہے لیکن حضرت امام ابویوسف کے نزدیک اس صورت میں صرف ایک رات ہی کا اعتکاف لازم ہوتا ہے۔
اگر کوئی شخص نذر مانے کہ میں ایک مہینہ کا اعتکاف کروں گا تو اس پر ایک مہینہ کا اعتکاف علی الاتصال ہو گا، چاہے اس نے نذر مانتے وقت علی الاتصال نہ کہا ہو۔