رمضان کے آخری عشرہ میں مجاہدہ
راوی:
وعن عائشة رضي الله عنها قالت : كان رسول الله صلى الله عليه و سلم إذا دخل العشر شد مئزره وأحيا ليله وأيقظ أهله
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ جب رمضان کا آخری عشرہ آتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنا تہبند مضبوط باندھتے اور رات کو زندہ کرتے اور اپنے اہل و عیال کو جگاتے۔ (بخاری ومسلم)
تشریح
تہبند مضبوط باندھتے ، یہ دراصل اس بات سے کنایہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آخری عشرہ میں اپنی عادت اور اپنے معمول سے بھی بہت زیادہ عبادت و مجاہدہ کیا کرتے تھے اس بات سے بھی کنایہ ہو سکتا ہے کہ اس عشرہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی عورتوں سے الگ رہتے تھے یعنی صحبت و مباشرت سے اجتناب فرماتے تھے۔
رات کو زندہ کرنے، کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رات کے اکثر حصہ میں یا پوری رات نماز، ذکر اور تلاوت قرآن میں مشغول رہتے تھے ۔ اس موقع پر یہ بات ملحوظ رہے کہ ایک روایت میں جو یہ منقول ہے کہ انہ علیہ السلام ما سہر جمیع اللیل کلہ (آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پوری رات شب بیداری نہیں فرماتے تھے) تو اس سے مراد یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیشہ اکثر پوری رات شب بیداری نہیں فرماتے تھے لہٰذا ایک دو رات یا دس راتیں پوری طرح شب بیداری میں گزار دینا اس روایت کے منافی نہیں ہے۔
اور اپنے اہل و عیال کو جگاتے، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی ازواج مطہرات صاحبزادیوں لونڈیوں اور غلاموں کو آخری عشرہ کی بعض راتوں میں شب بیداری کی تلقین فرماتے اور انہیں عبادت الٰہی میں مشغول رکھتے تاکہ لیلۃ القدر کی سعادت انہیں بھی حاصل ہو جائے۔