نفل روزہ توڑنے کے سلسلہ میں ضیافت عذر ہے یا نہیں ؟
راوی:
عن أم هانئ رضي الله عنها قالت : لما كان يوم الفتح فتح مكة جاءت فاطمة فجلست على يسار رسول الله صلى الله عليه و سلم وأم هانئ عن يمينه فجاءت الوليدة بإناء فيه شراب فناولته فشرب منه ثم ناوله أم هانئ فشربت منه فقالت : يا رسول الله لقد أفطرت وكنت صائمة فقال لها : " أكنت تقضين شيئا ؟ " قالت : لا . قال : " فلا يضرك إن كان تطوعا " . رواه أبو داود والترمذي والدارمي وفي رواية لأحمد والترمذي نحوه وفيه فقالت : يا رسول الله أما إني كنت صائمة فقال : " الصائم أمير نفسه إن شاء صام وإن شاء أفطر "
حضرت ام ہانی رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ جب مکہ فتح ہوا تو اس دن حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آئیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بائیں طرف بیٹھ گئیں اور ام ہانی رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دائیں طرف بیٹھی ہوئی تھیں اتنے میں ایک لونڈی ایک برتن لے کر آئی جس میں پینے کی کوئی چیز تھی لونڈی نے وہ برتن آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس میں سے کچھ پی کر وہ برتن ام ہانی رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو عنایت فرمایا۔ ام ہانی رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بھی اس میں سے پیا اور کہنے لگیں کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میں نے افطار کر لیا کیونکہ میں روزے سے تھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ کیا تم نے رمضان کا کوئی قضا یا نذر کا روزہ رکھا تھا؟ انہوں نے کہا نہیں! بلکہ نفل روزہ رکھا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اگر یہ نفل روزہ تھا تو کوئی حرج نہیں (ابو داؤد، ترمذی ، دارمی) ایک اور روایت میں جو احمد اور ترمذی نے اسی کی مانند نقل کیا ہے یہ الفاظ بھی ہیں کہ ام ہانی رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معلوم ہونا چاہئے کہ میں روزہ سے تھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نفل روزہ رکھنے والا اپنے نفس کا مالک ہے چاہے روزہ رکھے چاہے افطار کرے۔
تشریح
اپنے نفس کا مالک ہے کا مطلب یہ ہے کہ نفل روزہ رکھنے والا خود مختار ہے کہ ابتدا چاہے تو روزہ رکھے یعنی روزہ کی نیت کرے، چاہے افطار کرے یعنی روزہ نہ رکھنے کو اختیار کرے، یا پھر اس کا مطلب یہ ہو گا کہ نفل روزہ رکھنے والا روزہ رکھنے کے بعد بھی مختار ہے کہ چاہے تو اپنا روزہ پورا کرے چاہے تو توڑ ڈالے ، اس صورت میں اس کی تاویل یہ ہو گی کہ نفل روزہ دار کو اس بات کا اختیار ہے کہ اگر اس کے پیش نظر کوئی مصلحت ہو مثلا کوئی شخص اس کی ضیافت کرے یا کسی جماعت کے پاس جائے جس کے بارہ میں یہ معلوم ہو کہ اگر روزہ توڑ کر ان کے ساتھ کھانے پینے میں شریک نہیں ہو گا تو لوگ وحشت و پریشانی میں مبتلا ہو جائیں گے تو اس صورت میں وہ روزہ توڑ سکتا ہے تاکہ آپس میں میل ملاپ اور محبت و الفت کی فضا برقرار رہے لہٰذا ان الفاظ و معانی سے یہ استدلال نہیں کیا جا سکتا کہ نفل روزہ توڑنے کے بعد اس کی قضا ضروری نہیں ہے جب کہ اس کے بعد آنے والی حدیث بڑی وضاحت کے ساتھ قضا کے ضروری ہونے کو ثابت کر رہی ہے۔
ام ہانی رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی اس روایت کے بارہ میں محدثین کے ہاں کلام ہے چنانچہ امام ترمذی فرماتے ہیں کہ اس کی اسناد محل بحث ہے اور منذری رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ یہ ثابت نہیں ہے اور اس کی اسناد میں بہت اختلاف ہے۔