نفل روزہ کی نیت دن میں کی جاسکت ہے
راوی:
وعن عائشة رضي الله عنها قالت : دخل علي النبي صلى الله عليه و سلم ذات يوم فقال : " هل عندكم شيء ؟ " فقلنا : لا قال : " فإني إذا صائم " . ثم أتانا يوما آخر فقلنا : يا رسول الله أهدي لنا حيس فقال : " أرينيه فلقد أصبحت صائما " فأكل . رواه مسلم
ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے پاس تشریف لائے اور فرمانے لگے کہ کیا تمہارے پاس کھانے کی کوئی چیز ہے میں نے عرض کیا کہ نہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں نے اب روزہ رکھ لیا ہے، پھر اس کے بعد ایک دن اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور پوچھا کہ تمہارے پاس کھانے کی کوئی چیز ہے؟ تو میں نے کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ہمارے لئے حیس ہدیہ میں آیا ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ لاؤ مجھے وہ دکھاؤ میں نے صبح روزہ رکھ لیا تھا پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ حیس کھا لیا۔ (مسلم)
تشریح
میں نے اب روزہ رکھ لیا ہے ، کا مطلب یہ ہے کہ میں نے روزہ کی نیت کر لی ہے اس سے معلوم ہوا کہ نفل روزہ کی نیت دن میں کرنی چاہئے چنانچہ اکثر ائمہ کا یہی مسلک ہے مگر حضرت امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ روزہ کسی بھی قسم کا ہو خواہ فرض ہو یا نفل اس کی نیت رات ہی سے کرنی واجب ہے۔ اس مسئلہ کی پوری تفصیل گزشتہ صفحات میں بیان کی جا چکی ہے۔
حیس ایک کھانے کا نام ہے جو مالیدہ کی طرح ہوتا تھا اور کھجور، گھی اور قروت سے بنایا جاتا تھا بہر کیف حدیث کے آخری الفاظ کا مفہوم یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے روزہ کی حالت میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے حیس لے کر تناول فرمایا۔ اس سے معلوم ہوا کہ بغیر عذر کے بھی نفل روزہ توڑ ڈالنا جائز ہے چنانچہ اکثر علماء کا یہی مسلک ہے مگر حضرت امام ابوحنیفہ اور ان کے متبعین علماء رحمھم اللہ فرماتے ہیں کہ نفل روزہ شروع کر دینے کے بعد اسے پورا کرنا واجب ہے اس کو توڑ ڈالنا جائز نہیں ہے ہاں کسی عذر کی بناء پر مثلا مہمانداری وغیرہ کے پیش نظر نفل روزہ توڑا جا سکتا ہے، تاہم اس صورت میں بھی قضا واجب ہوتی ہے، چونکہ یہ حدیث اس بارہ میں حنفیہ کے مسلک کے خلاف ہے اس لئے اس کی تاویل یہ کی جاتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بلا عذر روزہ نہیں توڑا تھا۔ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کوئی ایسا عذر لاحق تھا جس کی بناء پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے روزہ توڑ ڈالا جس کو یہاں ذکر نہیں کیا گیا، اس مسئلہ میں حنفیہ کی دلیل آگے آ رہی ہے۔