ہمیشہ روزہ رکھنے کی ممانعت کی وجہ
راوی:
وعن مسلم القرشي قال : سألت أو سئل رسول الله صلى الله عليه و سلم عن صيام الدهر فقال : " إن لأهلك عليك حقا صم رمضان والذي يليه وكل أربعاء وخميس فإذا أنت قد صمت الدهر كله " . رواه أبو داود والترمذي
حضرت مسلم قرشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے یا کسی اور شخص نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہمیشہ روزہ رکھنے کے بارہ میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے اوپر تمہارے اہل وعیال کا بھی حق ہے اس لئے رمضان میں اور ان ایام میں جو رمضان سے متصل ہیں یعنی شش عید کے روزے رکھو نیز زیادہ سے زیادہ ہر بدھ اور جمعرات کو روزہ رکھ لیا کرو، اگر تم نے یہ روزے رکھ لئے تو سمجھ کہ ہمیشہ روزے رکھے۔ ( ابوداؤد ، ترمذی)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ ہمیشہ روزے رکھنے کی وجہ سے چونکہ ضعف لاحق ہو جاتا ہے جس کی بناء پر نہ صرف یہ کہ ادائیگی حقوق میں تعطل پڑتا ہے بلکہ دوسری عبادات میں بھی نقصان اور حجر واقع ہوتا ہے لہٰذا اسی سبب سے ہمیشہ روزہ رکھنا مکروہ ہے ہاں جس شخص کو اس کی وجہ سے ضعف لاحق ہو تو اس کے لئے ہمیشہ روزہ رکھنا مکروہ نہیں ہوگا بلکہ مستحب ہوگا اسی طرح دائمی روزے کی ممانعت کے سلسلہ میں منقول احادیث میں اور ان مشائخ وسلف کے عمل میں کہ جو ہمیشہ روزہ رکھتے تھے مذکورہ بالا وضاحت سے تطبیق بھی ہوجاتی ہے نیز ہوسکتا ہے کہ یہاں جو حدیث ذکر کی گئی ہے وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس حدیث سے پہلے ارشاد فرمائی ہوگی جس میں بتایا گیا تھا کہ ہر مہینہ میں تین روزے رکھنے سے ہمیشہ روزہ رکھنے کا ثواب حاصل ہوتا ہے۔
ایک اور بات سمجھ لیجئے گزشتہ صفحات میں تشریحات کے ضمن میں علامہ ابن ہمام وغیرہ کے وہ اقوال نقل کئے گئے تھے جن میں سے یہ بات ثابت ہوتی تھی کہ ہمیشہ کے روزے رکھنے مستقلاً مکروہ ہیں اور درمختار میں بھی یہی منقول ہے کہ دائمی طور پر روزہ رکھنا مکروہ تنزیہی ہے جب کہ یہاں یہ بات بتائی گئی ہے کہ ہمیشہ روزہ رکھنا اسی وقت مکروہ ہے جب کہ روزہ دار کے ضعف ونا تو انی میں مبتلا ہوجانے کا خوف ہو مگر ضعف کا خوف نہ ہو تو پھر مکروہ نہیں ہوگا، لہٰذا ان تمام اقوال میں مطابقت پیدا کی جائے کہ جن اقوال سے دائمی روزوں کا مطلقاً مکروہ ہونا ثابت ہوتا ہے درحقیقت ان کا محمول بھی خوف ضعف ہے یعنی ان اقوال کا مطلب بھی یہی ہے کہ اگر ضعف کا خوف ہو تو دائمی روزے مکروہ ہوں گے ورنہ نہیں!۔