مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ جنازوں کا بیان ۔ حدیث 55

مریض کے حال کی اطلاع دینے کا طریقہ

راوی:

وعن ابن عباس قال : إن عليا خرج من عند النبي صلى الله عليه و سلم في وجعه الذي توفي فيه فقال الناس : يا أبا الحسن كيف أصبح رسول الله صلى الله عليه و سلم ؟ قال : أصبح بحمد الله بارئا . رواه البخاري

حضرت ابن عباس رضی اللہ فرماتے ہیں کہ اس وقت جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مرض الموت میں مبتلا تھے حضرت علی کرم اللہ وجہہ (جب) نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس سے اٹھ کر باہر تشریف لائے تو لوگوں نے ان سے پوچھا کہ " ابوالحسن (یہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کنیت تھی) آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر صبح کیسی گزری؟ انہوں نے فرمایا " اللہ کا شکر ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیماری سے اچھے ہونے والے کی طرح صبح گزاری" (یعنی شکر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آج اچھے ہیں)" (بخاری)

تشریح
جب لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحت کے بارے میں پوچھا تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان الفاظ کے ذریعہ جواب دیا جس کا مطلب یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قریب بصحت ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ جواب یا تو ان کے اپنے گمان کے مطابق تھا کہ وہ یہ ہی سمجھ رہے ہوں گے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جلد ہی صحت یاب ہونے والے ہیں یا پھر یہ کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیماری کی شدت کے احساس اور صحت سے مایوسی کے باوجود یہ جواب نیک فال کے طور پر دیا۔
چنانچہ علماء لکھتے ہیں کہ جب کسی عیادت کرنے والے تیمار دار سے مریض کا حال پوچھا جائے تو اگرچہ بیمار کی حالت مایوس کن ہو مگر اس بارہ میں ادب اور طریقہ یہی ہے کہ فال نیک کے طور پر اس طرح سے امید افزاء اور خوش کن جواب دینا چاہئے۔

یہ حدیث شیئر کریں