نہ کسی کی طرف سے نماز پڑھی جاسکتی ہے نہ روزہ رکھا جاسکتا ہے
راوی:
عن مالك بلغه أن ابن عمر كان يسأل : هل يصوم أحد عن أحد أو يصلي أحد عن أحد ؟ فيقول : لا يصوم أحد عن أحد . ولا يصلي أحد عن أحد . رواه في الموطأ
حضرت امام مالک رحمہ اللہ کے بارہ میں مروی ہے کہ ان تک یہ روایت پہنچی ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا جاتا تھا کہ کیا کوئی شخص کسی دوسرے کی طرف سے نماز پڑھ سکتا ہے یا کسی دوسرے کی طرف سے روزہ رکھ سکتا ہے؟ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کے جواب میں فرمایا کرتے تھے کہ نہ تو کوئی شخص کسی دوسرے کی طرف سے نماز پڑھے اور نہ کسی دوسرے کی طرف سے روزے رکھے۔ (موطا)
تشریح
حضرت امام مالک ، ابوحنیفہ اور حضرت امام شافعی کا مسلک یہی ہے کہ نماز روزہ کسی کی طرف سے کرنا تاکہ وہ بری الذمہ ہو جائے درست نہیں ہے ہاں حنفیہ کے نزدیک یہ جائز ہے کہ کوئی شخص اپنے کسی بھی عمل کا ثواب خواہ وہ نماز ہو یا روزہ وغیرہ کسی دوسرے کو بخش سکتا ہے۔