مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ قضاء روزہ کا بیان ۔ حدیث 543

حائضہ پر روزہ کی قضا واجب ہے نماز کی قضا نہیں

راوی:

وعن معاذة العدوية أنها قالت لعائشة : ما بال الحائض تقضي الصوم ولا تقضي الصلاة ؟ قالت عائشة : كان يصيبنا ذلك فنؤمر بقضاء الصوم ولا نؤمر بقضاء الصلاة . رواه مسلم

حضرت معاذہ عدویہ رحمۃ اللہ علیہا ( جن کی کنیت ام الصہبا ہے اور جلیل القدر تابعیہ ہیں ) کے بارہ میں مروی ہے کہ انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے پوچھا کہ یہ کیا وجہ ہے کہ حائضہ عورت پر روزہ کی قضاء واجب مگر نماز کی قضاء واجب نہیں ؟ حضرت عائشہ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ مبارک میں جب ہمیں حیض آتا تو ہمیں روزہ کی قضاء کا حکم دیا جاتا تھا لیکن نماز کی قضاء کا حکم نہیں دیا جاتا تھا۔ (مسلم)

تشریح
سائلہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے حائضہ عورت کے بارہ میں نماز اور روزہ کی تفریق کی وجہ دریافت کی مگر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اس کی وجہ بیان کرنے کی بجائے مذکورہ بالا جواب دے کر گویا اس طرف اشارہ فرمایا کہ ہر مسئلہ کی وجہ دریافت کرنا یا اس کی علت کی جستجو کرنا کوئی اعلیٰ مقصد نہیں ہے بلکہ شان عبودیت کا تقاضہ صرف یہ ہونا چاہئے کہ شارع نے جو حکم دے دیا ہے اس کی علت پوچھے بغیر اس پر عمل کیا جائے چنانچہ یہ ممکن تھا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سوال کے پیش نظر یہ فرماتیں کہ اگر نماز کی قضا کا حکم دیا جاتا تو حائضہ عورت بہت زیادہ دقت و مشقت اور حرج میں مبتلا ہو جاتی کیونکہ ایام کے دنوں میں بہت زیادہ نمازیں ترک ہوتی ہیں ان سب کو ہر مہینہ قضا کرنا عورت پر بہت زیادہ بار ہو جاتا ہے اس لئے اس میں یہ آسانی عطا فرمائی گئی کہ ایام کے دنوں کی نمازیں حائضہ کے حق میں معاف فرما دی گئیں جب کہ روزہ سے واسطہ سال ہی میں صرف ایک مرتبہ پڑتا ہے ان کی قضا میں اتنی زیادہ مشقت اور حرج نہیں ہوتا اس لئے حائضہ پر ان کی قضا واجب قرار پائی لیکن حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اس جواب سے احتراز فرما کر مذکورہ بالا اسلوب اختیار فرمایا اور بحث و مباحثہ کی راہ بند کر دی کیونکہ ممکن تھا کہ سائلہ اس علت کو سن کر کہتی کہ میں تو نماز کی قضا میں حرج و مشقت محسوس نہیں کرتی پھر کیوں نہ نماز کی قضا بھی واجب ہو؟

یہ حدیث شیئر کریں