مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ مسافر کے روزے کا بیان ۔ حدیث 536

حالت سفر میں روزہ کی معافی

راوی:

عن أنس بن مالك الكعبي قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " إن الله وضع عن المسافر شطر الصلاة والصوم عن المسافر وعن المرضع والحبلى " . رواه أبو داود والترمذي والنسائي وابن ماجه

حضرت انس بن مالک کعبی رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مسافر کے لئے آدھی نماز موقوف کر دی ہے اسی طرح مسافر دودھ پلانے والی اور حاملہ عورت کے لئے روزہ معاف کر دیا ہے (ابو داؤد، ترمذی، نسائی ، ابن ماجہ)

تشریح
آدھی نماز موقوف کر دی ہے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مسافر کے لئے بھی پہلے چار رکعت نماز فرض تھی پھر بعد میں دو رکعت رہ گئی بلکہ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مسافر کے لئے ابتداء ہی سے آدھی نماز فرض فرمائی ہے کہ وہ چار رکعت والی نماز دو رکعت پڑھے اور دو رکعت کی قضا واجب نہیں ہے اسی طرح روزہ کی معافی کا مطلب یہ ہے کہ حالت سفر میں روزہ رکھنا واجب نہیں ہے۔ مگر سفر پورا ہونے کے بعد مسافر جب مقیم ہو جائے گا تو اس روزہ کی قضا اس پر ضروری ہو گی۔
دودھ پلانے والی اور حاملہ عورت کے بارہ میں پہلے بھی بتایا جا چکا ہے کہ ان کے لئے بھی جائز ہے کہ اگر روزہ کی وجہ سے بچہ یا خود ان کو تکلیف و نقصان پہنچنے کا گمان غالب ہو تو وہ روزہ نہ رکھیں لیکن عذر ختم ہو جانے کے بعد ان پر بھی قضاء واجب ہو گی فدیہ لازم نہیں ہو گا حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا یہی مسلک ہے لیکن حضرت امام شافعی اور حضرت امام احمد کے مسلک کے مطابق ان پر فدیہ بھی واجب ہے۔
اگر سفر میں آسانی اور آرام ہو تو روزہ رکھ لینا مستحب ہے
حضرت سلمہ بن محیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس شخص کے پاس ایسی سواری ہو جو اسے منزل تک آسانی اور آرام کے ساتھ پہنچا دے (یعنی اس کا سفر بامشقت نہ ہو بلکہ پر سکون اور پر راحت ہو) تو اسے چاہئے کہ جہاں بھی رمضان آئے روزہ رکھ لے۔ (ابو داؤد)

تشریح
یہ حکم استحباب اور فضیلت کے طور پر ہے ورنہ تمام علماء کے نزدیک متفقہ طور پر مسئلہ یہی ہے کہ حالت سفر میں روزہ نہ رکھنا جائز ہے خواہ سفر کتنا ہی پر سکون اور پر راحت کیوں نہ ہو ویسے بھی یہ حدیث ضعیف ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں