لغو وباطل کلام اور بے ہودہ افعال روزہ کے منافی ہیں
راوی:
وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " من لم يدع قول الزور والعمل به فليس لله حاجة في أن يدع طعامه وشرابه " . رواه البخاري
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو شخص (روزے کی حالت میں) لغو و باطل کلام اور بے ہودہ افعال نہ چھوڑے گا تو اللہ کو اس بات کی پرواہ نہیں ہو گی کہ اس نے اپنا کھانا پینا چھوڑ دیا ہے۔ (بخاری)
تشریح
لغو و باطل کلام سے مراد وہ باتیں ہیں جن کو اپنی زبان سے نکالنے میں گناہ لازم آتا ہے جیسے کفریات بکنا جھوٹی گواہی دینا، افتراء پردازی ، غیب کرنا، بہتان تراشی خواہ زنا کا بہتان ہو یا کسی برائی کا اور لعنت کرنا، یا اسی قسم کی وہ باتیں جن سے بچنا ضروری ہے۔ لہٰذا حدیث کا حاصل یہ ہے کہ جس روزہ دار نے نہ تو لغو و باطل کلام سے اپنی زبان کو بچا لیا اور نہ برے افعال کی غلاظت سے اپنے دامن کی حفاظت کی تو اللہ تعالیٰ کو اس بات کی کوئی پرواہ نہیں ہو گی کہ اس نے اپنا کھانا پینا اور دوسری خواہشات چھوڑ رکھی ہیں۔
اس بات کو زیادہ وضاحت کے ساتھ یوں سمجھئے کہ روزے کا اصل مقصد کیا ہے؟ یہی نا کہ انسان اپنی خواہشات نفسانی کو موت کے گھاٹ اتار دے اور اپنے نفس امارہ کو حق تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کا تابعدار بنا دے، مگر جب یہ مقصد ہی حاصل نہ ہوا کہ نہ تو روزہ دار نے بری باتیں ہی چھوڑیں اور نہ برے کام ہی چھوڑے جو روزے کے منافی ہیں تو اللہ کو کیا ضرورت ہے کہ وہ روزہ دار کے محض بھوکا پیاسا ہونے کی کوئی پرواہ کرے یا اس طرف نظر عنایت کرے ۔
گویا " پرواہ نہ کرنے" سے مراد ہے اس کی طرف التفات نہ کرنا اور اس کے روزہ کو شرف قبولیت سے نہ نوازنا اور ظاہر ہے کہ ایسے روزہ دار کی طرف اللہ التفات کرے بھی کیوں؟ اس نادان نے بیشک ان چیزوں کو تو ترک کیا جن کو رمضان کے مہینہ میں ترک کرنے ہی کا حکم ہے اگرچہ وہ دوسرے دنوں میں مباح ہیں مثلا کھانا پینا اور جماع وغیرہ مگر ان چیزوں کو اختیار کیا جنہیں روزہ کیا کسی بھی حالت میں اختیار کرنا حرام ہے۔
مشائخ لکھتے ہیں کہ روزہ کی تین قسمیں ہیں۔ ایک روزہ تو عوام کا ہے جس میں کھانے پینے اور جماع سے اپنے کو باز رکھا جاتا ہے دوسرا روزہ وہ خواص کا ہے کہ جس میں تمام اعضاء اور حسیات کو حرام و مکروہ خواہشات و لذات سے بچایا جاتا ہے بلکہ ایسی مباح چیزوں سے بھی اجتناب ہوتا ہے جو کسر نفسی کے منافی ہیں۔ اور تیسرا روزہ اخص الخواص کا ہوتا ہے کہ جس میں سوائے حق کے ہر چیز سے کلیۃ اجتناب ہوتا ہے بلکہ غیر حق کی طرف التفات بھی نہیں ہوتا۔