وہ اعذار جن کی بنا پر روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے
راوی:
ایسے اعذار کہ جن کی بنا پر روزہ نہ رکھنا مباح ہے دس ہیں۔
(١) مرض(٢) سفر (٣) اکراہ یعنی زبردستی (٤) حمل (٥) ارضاع یعنی دودھ پلانا (٦) بھوک(٧) پیاس(٨) بہت زیادہ بڑھاپا (٩) حیض (٠١) نفاس ۔ ان عوارض اور اعذار کو بتفصیل ذیل بیان کیا جا سکتا ہے۔
مرض
اگ روزہ رکھنے کسی نئے مرض کے پیدا ہو جانے یا موجودہ مرض کے بڑھ جانے کا خوف ہو، تو اس صورت میں روزہ نہ رکھنا چاہیے ۔ اسی طرح اگر یہ گمان ہو کہ روزہ رکھنے سے صحت و تندرستی دیر میں حاصل ہو گی تو بھی روزہ نہ رکھنا چاہیے کیونکہ بسا اوقات مرض کی زیادت اور اس میں طوالت ہلاکت کا باعث بن جاتی ہے اس لئے ان سے اجتناب ضروری ہے۔
مرض چونکہ نام ہے اس چیز کا جو طبیعت کے تغیر کا باعث ہوتی ہے اور جس کے سبب طبیعت کا سکون کرب و بے چینی میں تبدیل ہو جاتا ہے اور یہ کیفیت پہلے اندرونی طور پر محسوس ہوتی ہے پھر اس کا اثر جسم پر ظاہر ہوتا ہے لہٰذا مرض کسی بھی قسم کا ہو خواہ وہ آنکھ دکھنے اور جسم و بدن کے کسی زخم کی صورت میں ہو یا درد سر و بخار وغیرہ کی شکل میں، جب اس میں زیادتی اس کے طول پکڑ جانے کا اندیشہ ہو گا تو روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہو گی، بلکہ روزہ کی نیت کرنے کے بعد بھی اگر کوئی مرض پیدا ہو جائے مثلا کسی کو سانپ بچھو کاٹے یا بخار چڑھ آئے یا درد سر ہونے لگے تو اس کو اس دن کا روزہ رکھنا بھی ضروری نہیں ہے بلکہ بہتر یہی ہے کہ روزہ توڑ دیا جائے۔
علماء لکھتے ہیں کہ اگر کسی غازی اور مجاہد کو رمضان کے مہینہ میں دشمنان دین سے لڑنا ہو اور اسے اندیشہ ہو کہ روزہ کی وجہ سے ضعف لاحق ہو جائے گا جس کی بناء پر لڑائی میں نقصان پیدا ہو گا تو اس کے لئے جائز ہے کہ وہ روزہ نہ رکھے خواہ مسافر ہو یا مقیم۔ اسی پر علماء نے اس مسئلہ کو بھی قیاس کیا ہے کہ جس شخص کو باری کا بکار آتا ہو اور وہ باری کے دن بخار چڑھنے سے پہلے اپنا روزہ ختم کر دے اس خوف کی بناء پر کہ آج بخار چڑھے گا جس کی وجہ سے ضعف لاحق ہو جائے گا تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں اور اس دن بخار نہ بھی آئے تو صحیح مسئلہ یہ ہے کہ اس پر کفارہ واجب نہیں ہو گا جب کہ فتاویٰ عالمگیری میں لکھا ہے کہ دونوں صورتوں میں کفارہ لازم ہو گا۔
ایسے ہی اگر بازار والے رمضان کی تیس تاریخ کو طبل و نقارہ یا گولے وغیرہ کی آواز سنیں اور گمان کر کے کہ یہ آج عید کا دن ہونے کا اعلان ہے روزہ توڑ ڈالیں اور پھر بعد میں معلوم ہو کہ یہ آج عید کا دن ہونے کا اعلان نہیں تھا بلکہ کسی اور سبب سے طبل و نقارہ بجایا گیا تھا یا گولا داغا گیا تو اس صورت میں بھی ان پر کفارہ واجب نہیں ہو گا۔
سفر
سفر خواہ جائز ہو یا ناجائز، بے مشقت ہو جیسے پیادہ پا یا گھوڑے وغیرہ کی سواری پر ، ہر حال میں روزہ نہ رکھنا جائز ہے مگر بے مشقت سفر میں بہتر یہی ہے کہ روزہ رکھا جائے۔ بشرطیکہ اس کے تمام رفقاء سفر بغیر روزہ نہ ہوں اور سب کا خرچ مشترک نہ ہو، ہاں اگر اس کے تمام رفقاء سفر روزہ نہ رکھیں اور سب کا خرچ بھی مشترک ہو تو پھر روزہ نہ رکھنا ہی افضل ہو گا تاکہ پوری جماعت کی موافقت رہے۔
اگر کوئی شخص طلوع فجر سے پہلے سفر شروع کر کے مسافر ہو جائے تو اس دن کا روزہ نہ رکھنا اس کے لئے مباح ہے ہاں اگر کوئی شخص روزہ کی حالت میں طلوع فجر کے بعد سفر شروع کرے تو اب اس کے لئے روزہ نہ رکھنا مباح نہیں ہو گا البتہ بیمار ہو جانے کی صورت میں طلوع فجر کے بعد سفر شروع کرنے والے کے لئے روزہ نہ رکھنا مباح ہو گا اور بہر صورت کفارہ لازم نہیں ہو گا بلکہ صرف قضا واجب ہو گی خواہ سفر کی حالت میں بیماری کی وجہ سے روزہ توڑے یا بغیر بیماری کے۔
اکراہ (یعنی زبردستی)
جو شخص روزہ نہ رکھنے پر مجبور کیا جائے اس کو بھی شریعت نے روزہ نہ رکھنے یا روزہ توڑنے کی اجازت دی ہے مثلا کوئی شخص کسی روزہ دار کو زبردستی پچھاڑ کر اس کے منہ میں کوئی چیز ڈال دے یا کوئی شخص روزہ دار کو مجبور کرے کہ اگر تم نے روزہ رکھا تو تمہیں جان سے مار دیا جائے گا یا تمہیں ضرب شدید پہنچائی جائے گی، یا تمہارے جسم کا کوئی عضو کاٹ ڈالا جائے گا تو اس صورت میں اس کے لئے روزہ توڑنا یا روزہ نہ رکھنا جائز ہے۔
حمل
حاملہ عورت کو روزہ نہ رکھنا جائز ہے بشرطیکہ اپنی یا اپنے بچے کی مضرت کا خوف ہو، یا عقل میں فتور آ جانے کا اندیشہ ہو مثلا اگر حاملہ کو خوف ہو کہ روزہ رکھنے سے خود اپنی دماغی و جسمانی کمزوری انتہاء کو پہنچ جائے گی یا ہونے والے بچہ کی زندگی اور صحت پر اس کا برا اثر پڑے گا یا خود کسی بیماری و ہلاکت میں مبتلا ہو جائے گی تو اس کے لئے جائز ہے کہ وہ روزہ قضا کر دے۔
ارضاع
جس طرح حاملہ عورت کو روزہ نہ رکھنا جائز ہے اسی طرح دودھ پلانے والی عورت کو روزہ نہ رکھنا جائز ہے خواہ وہ بچہ اسی کا ہو کسی دوسرے کے بچہ کو باجرت یا مفت دودھ پلاتی ہو بشرطیکہ اپنی صحت و تندرستی کی خرابی یا بچے کی مضرت کا خوف ہو جن لوگوں نے یہ کہا ہے کہ اس بارہ میں " دودھ پلانے والی عورت " سے صرف دایہ مراد ہے غلط ہے، کیونکہ حدیث میں مطلقاً دودھ پلانے والی عورت کو روزہ نہ رکھنے کی اجازت دی گئی ہے چاہے وہ ماں ہو یا دایہ، چنانچہ ارشاد ہے۔ حدیث (ان اللہ وضع عن المسافر الصوع وشطر الصلوۃ وعن الحبلیٰ والمرضع الصوم)۔ اللہ تعالیٰ نے مسافر کے لئے روزہ اور آدھی نماز معاف کی ہے اسی طرح حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت کے لئے بھی روزہ معاف کیا ہے۔ پھر یہ اگر اس بارہ میں کوئی تخصیص ہوتی تو قیاس کا تقاضہ یہ ہے کہ تخصیص دایہ کی بجائے ماں کے لئے ہوتی کیونکہ دایہ کے لئے کسی بچہ کو دودھ پلانا واجب اور ضروری نہیں ہے وہ تو صرف اجرت کے لئے دودھ پلاتی ہے اگر وہ چاہے تو اس کام کو چھوڑ سکتی ہے جب کہ ماں کا معاملہ برعکس ہے اپنے بچہ کو دودھ پلانا اس پر دیانۃً واجب ہے خصوصا جب کہ باپ مفلس ہو۔
دودھ پلانے والی عورت کو دوا پینا جائز ہے جب کہ طبیب و ڈاکٹر کہے کہ یہ دوا بچے کو فائدہ کرے گی ، مسئلہ بالا میں بتایا گیا ہے کہ حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت کے لئے روزہ نہ رکھنا جائز ہے جب کہ اسے اپنی یا اپنے بچہ کی مضرت کا خوف ہو تو اس بارہ میں جان لیجئے کہ خوف سے مراد یہ ہے کہ یا تو کسی سابقہ تجربہ کی بناء پر اپنی یا اپنے بچہ کی مضرت کا گمان غالب ہو یا یہ کہ مسلمان طبیب حازق جس کا کردار عقیدہ و عمل کے اعتبار سے قابل اعتماد ہو یہ بات کہے کہ روزہ کی وجہ سے اسے ضرر پہنچے گا۔
بھوک اور پیاس
جس شخص کو بھوک یا پیاس کا اس قدر غلبہ ہو کہ اگر کچھ نہ کھائے یا پانی نہ پئے تو جان جاتی رہے یا عقل میں فتور آ جائے یا ہوش و حو اس ختم ہو جائے تو اس کے لئے بھی روزہ رکھنا جائز ہے اور روزہ کی نیت کر لینے کے بعد اگر ایسی حالت پیدا ہو جائے تب بھی اس کو اختیار ہے اگر روزہ توڑ دے گا تو کفارہ لازم نہ ہو گا صرف قضا واجب ہو گی مگر شرط یہ ہے کہ روزہ دار نے از خود اپنے نفس کو اس قدر مشقت میں مبتلا کر کے یہ حالت پیدا نہ کر دی ہو مثلا کسی شخص نے از خود اپنے نفس کو بایں طور مشقت میں مبتلا کیا کہ بغیر کسی شدید ضرورت کے کوئی لمبی چوری دوڑ لگائی جس کی وجہ سے پیاس کی شدت سے مجبور ہو کر روزہ توڑ ڈالا تو اس پر کفارہ لازم ہو گا اگرچہ بعض حضرات نے کہا ہے کہ کفارہ لازم نہیں ہو گا۔
حضرت علی بن احمد رحمہ اللہ سے پیشہ و مزدوری کرنے والوں کے بارے میں پوچھا گیا کہ کوئی مزدور یہ جانے کہ اگر میں اپنے اس کام میں مشغول ہوں گا تو ایسی بیماری میں مبتلا ہو جاؤں گا جس میں روزہ نہ رکھنا مباح ہے درآنحالیکہ وہ اپنا اور اپنے اہل و عیال کا پیٹ پالنے کے لئے اس کام کے کرنے پر مجبور ہے تو آیا بیماری میں مبتلا ہونے سے پہلے اس کے کھانا مباح ہے یا نہیں؟ تو علی بن احمد نے اس بات سے سختی کے ساتھ منع فرمایا۔
لیکن اس بارہ میں جہاں تک مسئلہ کا تعلق ہے تو درمختار میں لکھا ہے کہ اس صورت میں اگر اس مذکورہ بالا خوف ہو تو اسے چاہیے کہ وہ آدھے دن تو محنت و مزدوری کرے اور آدھے دن آرام کرے تاکہ اسباب معیشت بھی فراہم ہو جائیں اور روزہ بھی ہاتھ سے نہ جائے۔
بڑھاپا
شیخ فانی اور بڑھیا فانیہ کے لئے بھی جائز ہے کہ وہ روزہ نہ رکھیں شیخ فانی اور بڑھیا فانیہ اس مرد اور عورت کو کہتے ہیں جو زندگی کے آخری سٹیج پر پہنچ چکے ہوں، ادائیگی فرض سے قطعا مجبور اور عاجز ہوں اور جسمانی طاقت وقت روزبروز گھٹتی چلی جا رہی ہو یہاں تک کہ ضعف و نا تو انی کے سبب انہیں یہ قطعا امید نہ ہو کہ آئندہ بھی کبھی روزہ رکھ سکیں گے۔
حیض و نفاس
جو عورت حیض یا نفاس میں مبتلا ہو تو اس کے لئے بھی جائز ہے کہ وہ روزہ نہ رکھے۔
فدیہ
مذکورہ بالا اعذار میں صرف شیخ فانی اور بڑھیا فانیہ کے لئے جائز ہے کہ وہ اپنے روزوں کا فدیہ ادا کریں ہاں اس شخص کے لئے فدیہ دینا جائز ہے جس نے ہمیشہ روزے رکھنے کی نذر مانی ہو مگر اس سے عاجز ہو یعنی کوئی شخص یہ نذر مانے کہ میں ہمیشہ روزہ رکھوں گا مگر بعد میں وہ اسباب معیشت کے حصول یا کسی اور عذر کی وجہ سے اپنی نذر کو پورا نہ کر سکتے تو اس کے لئے جائز ہے کہ وہ روزے نہ رکھے البتہ ہر دن فدیہ دے دیا کرے ان کے علاوہ اور تمام اعذار کا مسئلہ یہ ہے کہ عذر زائل ہو جانے کے بعد روزوں کی قضا ضروری ہے فدیہ دینا درست نہیں یعنی فدیہ دینے سے روزہ معاف نہیں ہو گا اسی لئے اگر کوئی معذور اپنے عذر کی حالت میں مر جائے۔ تو اس پر ان روزوں کے فدیہ کی وصیت کر جانا واجب نہیں ہے جو اس کے عذر کی وجہ سے فوت ہوئے ہوں اور نہ اس کے وارثوں پر یہ واجب ہو گا کہ وہ فدیہ ادا کریں خواہ عذر یا بیماری کا ہو یا سفر کا، یا مذکورہ بالا اعذار میں سے کوئی اور عذر۔ ہاں اگر کوئی شخص اس حالت میں انتقال کرے کہ اس کا عذر زائل ہو چکا تھا اور وہ قضا روزے رکھ سکتا تھا مگر اس نے قضا روزے نہیں رکھے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ ان ایام کے روزوں کے فدیہ کی وصیت کر جائے جن میں مرض سے نجات پا کر صحت مند رہا تھا یا سفر پورا کر کے مقیم تھا اور یا جو بھی عذر رہا ہو وہ زائل ہو چکا تھا۔
اگر کوئی شیخ فانی سفر کی حالت میں انتقال کر جائے تو اس کی طرف سے ان ایام کے روزوں کا فدیہ دینا ضروری نہیں ہو گا۔ جن میں وہ مسافر رہا کیونکہ جس طرح اگر کوئی دوسرا شخص سفر کی حالت میں مر جائے تو اس کے لئے ایام سفر کے روزے معاف ہوتے ہیں اسی طرح اس کے لئے بھی ان ایام کے روزے معاف ہوں گے۔
جس شخص پر فدیہ لازم ہو اور وہ فدیہ دینے پر قادر نہ ہو تو پھر آخری صورت یہی ہے کہ وہ اللہ رب العز سے استغفار کرے عجب نہیں کہ ارحم الراحمین اسے معاف کر دے۔
فدیہ کی مقدار
ہر دن کے روزے کے بدلے فدیہ کی مقدار نصف صاع یعنی ایک کلو ٢٣٣ گرام گیہوں یا اس کی مقدار ہے فدیہ اور کفارہ میں جس طرح تملیک جائز ہے اسی طرح اباحت طعام بھی جائز ہے یعنی چاہے تو ہر دن کے بدلے مذکورہ بالا مقدار کسی محتاج کو دے دی جائے اور چاہے ہر دن دونوں وقت بھوکے کو پیٹ بھر کر کھانا کھلا دیا جائے دونوں صورتیں جائز ہیں۔ صدقہ فطر کے برخلاف کہ اس میں زکوۃ کی طرح تملیک ہی ضروری ہے اس بارہ میں یہ اصول سمجھ لیجئے کہ جو صدقہ لفظ اطعام یا طعام (کھلانے ) کے ساتھ مشروع ہے اس میں تملیک اور اباحت دونوں جائز ہیں اور جو صدقہ لفظ " ایتاء یا ادا " کے ساتھ مشروع ہے اس میں تملیک شرط اور ضروری ہے اباحت قطعا جائز نہیں ہے۔
قضاء روزے
قضاء روزے پے در پے رکھنا شرط اور ضروری نہیں ہے تاہم مستحب ضرور ہے تاکہ واجب ذمہ سے جلد اتر جائے اسی طرح یہ بھی مستحب ہے کہ جس شخص کا عذر زائل ہو جائے وہ فوراً روزے شروع کر دے کیونکہ اس میں تاخیر مناسب نہیں ہے ویسے مسئلہ یہ ہے کہ قضاء روزوں کا معا عذر زائل ہوتے ہی رکھنا بھی ضروری نہیں ہے اختیار ہے کہ جب چاہے رکھے۔ نماز کی طرح اس میں ترتیب بھی فرض نہیں ہے قضا روزے رکھے بغیر ادا کے روزے رکھے جا سکتے ہیں۔
اس موقع پر یہ بات بھی جان لیجئے کہ شریعت میں تیرہ قسم کے روزے ہیں جن میں سے سات قسم کے روزے تو وہ ہیں جو علی الاتصال یعنی پے در پے رکھے جاتے ہیں۔ (١) رمضان کے مہینے کے روزے (٢) کفارہ ظہار کے روزے (٣) کفارہ قتل کے روزے ۔ (٤) کفارہ یمین کے روزے (٥) رمضان میں قصدا توڑے ہوئے روزوں کے کفارہ کے روزے (٦) نذر معین کے روزے (٧) اعتکاف واجب کے روزے۔
اور چھ قسم کے روزے ایسے ہیں جن میں اختیار ہے چاہے تو پے در پے رکھے جائیں چاہے متفرق طور پر یعنی ناغہ کے ساتھ۔ (١) نفل روزے (٢) رمضان کے قضا روزے (٣) متعہ کے روزے (٤) فدیہ حلق کے روزے (٥) جزاء عید کے روزے (٦) نذر مطلق کے روزے۔
صحیح یہ ہے کہ نفل روزے کا بھی بغیر کسی عذر کے توڑ ڈالنا جائز نہیں ہاں اتنی بات ہے کہ نفل روزہ شروع ہو جانے کے بعد واجب ہو جاتا ہے لہٰذا وہ کسی بھی حالت میں توڑا جائے گا تو اس کی قضا ضروری ہو گی ہاں پانچ ایام ایسے ہیں جن میں اگر نفل روزہ بعد شروع کر چکے کے توڑ دیا جائے تو قضا واجب نہیں ہوتی ، دو دن تو عیدو بقر عید کے اور تین دن تشریق (ذی الحجہ کی ١١، ٢ا،١٣، تاریخ) کے ، چونکہ ان ایام کے روزے رکھنے ممنوع ہیں لہٰذا ان ایام میں جب روزہ شروع ہی سے واجب نہیں ہو گا تو اس کے توڑنے پر قضا بھی واجب نہیں ہو گی۔
اگر کوئی شخص ان پانچوں ایام کے روزے کی نذر مانے یا پورے سال کے روزے کی نذر مانے تو ان دونوں صورتوں میں ان ایام میں روزے نہ رکھے جائیں بلکہ دوسرے دنوں میں ان کے بدلے قضا روزے رکھے جائیں۔
آخر میں ایک مسئلہ یہ بھی جان لیجئے کہ جب بچہ میں روزے رکھنے کی طاقت آ جائے تو اسے روزہ رکھنے کے لئے کہا جائے اور جب وہ دس برس کا ہو جائے تو روزہ نہ رکھنے کی صورت میں اس پر سختی کی جائے اور اسے روزہ رکھنے پر مجبور کیا جائے جیسا کہ نماز کے بارے میں حکم ہے۔