مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ روزہ کو پاک کرنے کا بیان ۔ حدیث 507

وہ چیزیں جن سے صرف قضالازم ہوتی ہے کفارہ لازم نہیں ہوتا

راوی:

اس بارہ میں قاعدہ کلیہ یہ ہے کہ اگر کسی ایسی چیز سے روزہ فاسد ہو جو غذا کی قسم سے نہ ہو یا اگر ہو تو کسی شرع عذر کی بنا پر اسے پیٹ یا دماغ میں پہنچایا گیا ہو یا کوئی ایسی چیز ہو جس سے شرمگاہ کی شہوت پوری طرح ختم نہ ہوتی ہو جیسے جلق وغیرہ تو ایسی چیزوں سے کفارہ لازم نہیں ہوتا بلکہ صرف قضا ضروری ہے لہٰذا اگر روزہ دار رمضان میں کچے چاول اور خشک یا گوندھا ہوا آٹا کھائے تو روزہ جاتا رہتا ہے اور قضا واجب ہوتی ہے اور اگر کوئی جو یا گیہوں کا آٹا پانی میں گوندھ کر اور اس میں شکر ملا کر کھائے گا تو اس صورت میں کفارہ لازم ہو جائے گا۔
اگر کوئی شخص یکبارگی بہت زیادہ نمک کھائے یا گل ارمنی کے علاوہ کوئی ایسی مٹی کھائے جس کو عادۃً کھایا نہیں جاتا یا گٹھلی یا روئی یا اپنا تھوک نگل لے جو ریشم و کپڑے وغیرہ کے رنگ مثلا زرد، سبزہ وغیرہ سے متغیر تھا اور اسے اپنا روزہ بھی یاد تھا یا کاغذ یا اس کے مانند ایسی کوئی چیز کھائی جو عادۃً نہیں کھائی جاتی یا کچی بہی یا اس کے مانند ایسا کوئی پھل کھائے جو پکنے سے پہلے عادۃً کھائے نہیں جاتے اور انہیں پکا کر یا نمک ملا کر نہیں کھایا ، یا ایسا تازہ اخروٹ کھایا جس میں مغز نہ ہو یا کنکر، لوہا، تانبا، سونا چاندی، اور یا پتھر خواہ وہ زمرد وغیرہ ہی ہو نگل گیا تو ان صورتوں میں کفارہ واجب نہیں ہو گا، صرف قضا لازم ہو گی اسی طرح اگر کسی نے حقنہ کرایا ، یا ناک میں دوا ڈالی یا منہ میں دوا رکھی اور اس میں سے کچھ حلق میں اتر گئی اور یا کانوں میں تیل ڈالا تو ان صورتوں میں بھی صرف قضا لازم آئے گی کفارہ واجب نہیں ہوگا۔
کان میں قصدا پانی ڈالنے کے بارہ میں مختلف اقوال ہیں ہدایہ ملتقیٰ، درمختار، شرح وقایہ اور اکثر متون میں مذکور ہے کہ اس صورت میں روزہ نہیں ٹوٹتا مگر قاضی خان اور فتح القدیر میں لکھا ہے کہ اس بارہ میں صحیح مسئلہ یہ ہے کہ روزہ جاتا رہتا ہے اور قضا لازم آتی ہے۔
کسی شخص نے پیٹ کے زخم میں دوا ڈالی اور وہ پیٹ میں پہنچ گئی یا سر کے زخم میں دوا ڈالی اور وہ دماغ میں پہنچ گئی یا حلق میں بارش کا پانی یا برف چلا گیا اور اسے قصدا نہیں نگلا بلکہ از خود حلق سے نیچے اتر گیا یا چوک میں روزہ جاتا رہا مثلا کلی کرتے ہوئے پانی حلق کے نیچے اتر گیا یا ناک میں پانی دیتے ہوئے دماغ کو چڑھ گیا، یا کسی نے زبردستی روزہ تڑوا دیا خواہ جماع ہی کے سبب سے یعنی خاوند نے زبردستی بیوی سے جماع کیا یا بیوی نے زبردستی خاوند سے جماع کرایا تو ان سب صورتوں میں بھی کفارہ لازم نہیں ہو گا بلکہ صرف قضا لازم ہو گی ہاں جماع کے سلسلہ میں زبردستی کرنے والے پر کفارہ بھی لازم ہو گا اور جس کے ساتھ زبردستی کی گئی اس پر صرف قضا واجب ہو گی۔
اگر کوئی عورت جو لونڈی ہو (خواہ حرم یا منکوحہ) خدمت و کام کاج کی وجہ سے بیمار ہو جانے کے خوف سے روزہ توڑ ڈالے تو اس پر قضا لازم ہو گی، اسی طرح اگر لونڈی اس صورت میں روزہ توڑ ڈالے جب کہ کام کاج مثلا کھانا پکانا یا کپڑا وغیرہ دھونے کی وجہ سے ضعف و توانائی لاحق ہو گئی تو اس صورت میں بھی قضا واجب ہو گی اس ضمن میں یہ مسئلہ ذہن میں رہنا چاہئے کہ اگر کسی لونڈی کو اس کا آقا کسی ایسے کام کے لئے کہے جو ادائے فرض سے مانع ہو تو اس کا کہنا ماننے سے انکار کر دینا چاہئے
کسی شخص نے روزہ دار کے منہ میں سونے کی حالت میں پانی ڈال دیا یا خود روزہ دار نے سونے کی حالت میں پانی پی لیا تو اس کا روزہ ٹوٹ جائے گا اور اس پر قضا واجب ہو گی اس مسئلہ کو بھول کر کھا پی لینے کی صورت پر قیاس نہیں کیا جا سکتا اس لئے کہ اگر سونے یا وہ شخص کہ جس کی عقل جاتی رہی ہو کوئی جانور ذبح کرے تو اس کا مذبوحہ کھانا حلال نہیں ہے اس کے برخلاف اگر کوئی ذبح کے وقت بسم اللہ پڑھنا بھول جائے تو اس کا ذبح کیا ہوا جانور کھانا جائز ہے اسی طرح یہاں بھی مسئلہ یہ ہے کہ بھول کی حالت میں کھانے پینے والے کا روزہ نہیں ٹوٹے گا، ہاں کوئی شخص سونے کی حالت میں کھا پی لے تو اس کا روزہ ٹوٹ جائے گا۔
ایک شخص نے بھول کر روزے میں کچھ کھا لیا پھر اس کے بعد قصدا کھایا، یا بھول کر جماع کر لیا اور اس کے بعد پھر قصدا جماع کیا یا دن میں روزہ کی نیت کی پھر قصدا کھا پی لیا یا جماع کیا، یا رات ہی سے روزہ کی نیت کی پھر صبح ہو کر سفر کیا اور پھر اس کے بعد اقامت کی نیت کر لی اور کچھ کھا پی لیا اگرچہ اس صورت میں اس کے لئے روزہ توڑنا جائز نہیں تھا، یا رات سے روزہ کی نیت کی ، صبح کو مقیم تھا ، پھر سفر کیا اور مسافر ہو گیا اور حالت سفر میں قصدا کھایا یا جماع کیا، اگرچہ اس صورت میں اس کے لئے روزہ توڑنا جائز نہیں تھا تو ان تمام صورتوں میں صرف قضا لازم ہوگی کفارہ واجب نہیں ہوگا مسئلہ مذکورہ میں حالت سفر میں کھانے کی قید اس لئے لگائی گئی ہے کہ اگر کوئی شخص سفر شروع کر دینے کے بعد پھر اپنی کوئی بھولی ہوئی چیز لینے کے لئے واپس اپنے گھر میں آئے اور اپنے مکان میں یا اپنے شہر و اپنی آبادی سے جدا ہونے سے پہلے قصدا کھا لے تو اس صورت میں قضا اور کفارہ دونوں لازم ہونگے۔
اگر کوئی شخص تمام دن کھانے پینے اور دوسری ممنوعات روزہ سے رکا رہا مگر نہ تو اس نے روزہ کی نیت کی اور نہ افطار کیا، یا کسی شخص نے سحری کھائی یا جماع کیا اس حالت میں کہ طلوع فجر کے بارہ میں اسے شک تھا حالانکہ اس وقت فجر طلوع ہو چکی تھی، یا کسی شخص نے غروب آفتاب کے ظن غالب کے ساتھ افطار کیا حالانکہ اس وقت تک سورج غروب نہیں ہوا تھا تو ان صورتوں میں صرف قضا واجب ہو گی کفارہ لازم نہیں ہو گا، اور اگر غروب آفتاب میں شک ہونے کی صورت میں افطار کیا اور حالانکہ اس وقت تک سورج غروب نہیں ہوا تھا تو اس صورت میں کفارہ لازم ہونے کے بارہ میں دو قول ہیں جس میں سے فقیہ ابوجعفر رحمہ اللہ کا مختار قول یہ ہے کہ غروب آفتاب کے شک کی صورت میں کفارہ لازم ہو گا اس طرح اگر کسی شخص کا ظن غالب یہ ہو کہ آفتاب غروب نہیں ہوا ہے۔ مگر اس کے باوجود وہ روزہ افطار کرے اور حقیقت میں بھی سورج غروب نہ ہوا تو اس پر کفارہ لازم ہو گا۔
کسی شخص کو جانور کے ساتھ یا میت کے ساتھ فعل بد کرنے کے سبب انزال ہو گیا یا کسی کی ران یا ناف یا ہاتھ کی رگڑ سے منی گرائی یا کسی کو چھونے یا اس کا بوسہ لینے کی وجہ سے انزال ہو گیا یا غیر ادائے رمضان کا روزہ توڑا تو ان سب صورتوں میں کفارہ واجب نہیں ہو گا بلکہ قضا لازم ہو گی، اسی طرح اگر کسی نے روزہ دار عورت کے ساتھ اس کے سونے کی حالت میں جماع کیا تو اس عورت کا روزہ جاتا رہے گا اور اس پر صرف قضا لازم ہو گی کفارہ واجب نہیں ہو گا، یا کسی عورت نے رات سے روزہ کی نیت کی اور جب دن ہوا تو دیوانی ہو گئی اور اس کی دیوانگی کی حالت میں کسی نے اس سے جماع کیا تو اس صورت میں اس عورت پر اس روزہ کی قضا لازم ہو گی۔
اگر کسی عورت نے اپنی شرمگاہ میں پانی یا دوائی ٹپکائی یا کسی نے تیل یا پانی سے بھیگی ہوئی انگلی اپنے مقعد میں داخل کی یا کسی نے اس طرح استنجاء کیا کہ پانی حقنہ کی جگہ تک پہنچ گیا اگرچہ ایسا کم ہوتا ہے یا استنجاء کرنے میں زیادتی و مبالغہ کی وجہ سے پانی فرج داخل تک پہنچ گیا تو قضا واجب ہو گی۔
کسی شخص کو بواسیر ہو اور اس کے مسے باہر نکل آئیں اور وہ ان کو دھوئے تو اگر ان مسوں کو اوپر اٹھنے سے پہلے خشک کر لیا جائے گا تو ان کے اوپر چڑھ جانے سے روزہ نہیں ٹوٹے گا۔ کیونکہ اس طرح پانی بدن کے ایک ظاہر حصہ پر پہنچا تھا اور پھر بدن کے اندرونی حصہ میں پہنچنے سے پہلے زائل ہو گیا ہاں اگر مسے اوپر چڑھنے سے پہلے خشک نہ ہوں گے تو روزہ فاسد ہو جائے گا۔
اگر کوئی عورت تیل یا پانی سے ترکی ہوئی انگلی اپنی شرم گاہ کے اندرونی حصے میں داخل کرے گی یا کوئی شخص روئی یا کپڑا یا پتھر اپنی دبر میں داخل کرے گا یا کوئی عورت ان چیزوں کو اپنی شرمگاہ کے اندرونی حصہ میں داخل کرے گی اور یہ چیزیں اندر غائب ہو جائیں گی تو روزہ جاتا رہے گا اور قضا لازم ہو گی ہاں اگر لکڑی وغیرہ کا ایک سرا ہاتھ میں رہے یا یہ چیزیں عورت کی شرمگاہ کے بیرونی حصہ ہی تک پہنچی تو روزہ فاسد نہیں ہو گا اسی طرح اگر کسی شخص نے ڈورا نگل لیا بایں طور کہ اس کا ایک سرا اس کے ہاتھ میں ہو اور پھر وہ اس ڈورے کو باہر نکالے تو روزہ فاسد نہیں ہو گا اور اگر اس کا ایک سرا ہاتھ میں نہ ہو بلکہ سب نگل جائے تو یہ روزہ ٹوٹ جائے گا اور قضا لازم ہو گی۔
جو شخص قصدا اپنے فعل سے کسی چیز کا دھواں اپنے دماغ یا اپنے پیٹ میں داخل کرے گا تو بعید نہیں کہ کفارہ بھی لازم ہو جائے کیونکہ ان کا دھواں نہ صرف یہ کہ قابل انتفاع ہے بلکہ اکثر دواءً بھی استعمال ہوتا ہے اسی طرح سگریٹ بیڑی اور حقہ کا دھواں داخل کرنے کی صورت میں بھی کفارہ لازم ہو سکتا ہے۔
اگر کسی شخص نے قصدا قے کی خواہ وہ منہ بھر کر نہ آئی ہو تو اس کا روزہ جاتا رہے گا اور قضا لازم آئے گی اس بارہ میں روایت یہی ہے لیکن حضرت امام ابویوسف فرماتے ہیں کہ قصدا قے کرنے کی صورت میں روزہ اسی وقت فاسد ہو گا اور قضا لازم ہو گی جب کہ قے منہ بھر کر آئی ہو اگر منہ بھر کر نہ آئی ہو گی تو نہ روزہ فاسد ہو گا اور نہ قضاء لازم ہو گی۔ چنانچہ زیادہ صحیح اور مختار قول یہی ہے۔
کسی شخص کو از خود منہ بھر کر قے آئی اور وہ اسے نگل گیا، یا کسی شخص نے دانتوں میں اٹکی ہوئی کوئی چیز جو ایک چنے کے بقدر یا اس سے زیادہ تھی کھا لی یا کسی شخص نے رات سے نیت نہیں کی، دن میں بھی اس نے نیت نہیں کی تھی کہ بھول کر کچھ کھا لیا پی لیا اور اس کے بعد اس نے روزہ کی نیت کی تو ان سب صورتوں میں روزہ نہیں ہو گا اور قضا لازم ہو گی، یا اسی طرح کوئی روزہ دار بے ہوش ہو جائے اور خواہ وہ مہینہ بھر تک بے ہوش رہے تو اس پر قضا لازم ہو گی ہاں اس دن کے روزہ کی قضا لازم نہیں ہو گی۔ جس دن میں یا جس کی رات سے بیہوشی شروع ہوئی ہو کیونکہ مسلمان کے بارہ میں نیک گمان ہی کرنا چاہئے اس لئے ہو سکتا ہے اس نے رات میں نیت کر لی ہو اور اس طرح اس کا روزہ پورا ہو جائے گا اب اس کے بعد جتنے دنوں بیہوش رہے گا ان کی قضا کرے گا۔ بے ہوشی شروع ہونے والے دن کے بارہ میں بھی مگر یہ یقین ہو کہ نیت کی تھی تو اس دن کے روزہ کی قضا بھی ضروری ہو گی۔ بیہوشی کے دنوں کے روزوں کی قضا اس لئے ضروری ہو گی کہ اگرچہ اس نے کچھ کھایا پیا نہیں مگر چونکہ روزہ کی نیت نہیں پائی گئی اس لئے بیہوشی کی حالت میں اس کا بغیر نیت کچھ نہ کھانا پینا اور تمام چیزوں سے رکے رہنا کافی و کار آمد نہیں ہو گا اگر کسی شخص پر رمضان کے پورے مہینہ میں دیوانگی طاری رہی تو اس پر قضا واجب نہیں ہو گی ہاں مگر پورے مہینہ دیوانگی طاری نہ رہی تو پھر قضا ضروری ہو گی اور اگر کسی شخص پر پورے مہینے بایں طور دیوانگی طاری رہی کہ دن میں یا رات میں نیت کا وقت ختم ہو جانے کے بعد اچھا ہو جاتا تو جب بھی قضا ضروری نہیں ہو گی بلکہ یہ پورے مہینہ دیوانگی طاری رہنے کے حکم میں ہو گا۔
اگر کسی شخص نے رمضان میں روزے کی نیت نہیں کی اور پھر اس نے دن میں کھایا پیا تو امام اعظم ابوحنیفہ کے قول کے مطابق اس صورت میں کفارہ واجب نہیں ہو گا صرف قضا لازم ہو گی مگر صاحبین کا قول یہ ہے کہ کفارہ واجب ہو گا۔
کسی شخص کا روزہ ٹوٹ گیا خواہ وہ کسی عذر ہی کی بناء پر ٹوٹا ہو پھر وہ عذر بھی ختم ہو گیا ہو تو اب اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ دن کے بقیہ حصہ میں رمضان کے احترام کے طور پر کھانے پینے میں ممنوع دوسری چیزوں سے اجتناب کرے، اسی طرح اس عورت کو بھی دن کے بقیہ حصہ میں روزہ میں ممنوع چیزوں سے اجتناب ضروری ہے جو حیض یا نفاس میں مبتلا تھی اور طلوع فجر کے بعد پاک ہو گئی نیز مسافر جو دن میں کسی وقت مقیم ہو گیا ہو یا بیمار جو اچھا ہو گیا ہو دیوانہ شخص جس کی دیوانگی جاتی رہی ہو، لڑکا جو بالغ ہو اور کافر جو اسلام قبول کر لے ان سب لوگوں کو بھی دن کے بقیہ حصہ میں کھانے پینے اور دوسری ممنوع چیزوں سے پرہیز کرنا چاہئے ان سب پر اس دن کے روزہ کی قضا لازم ہو گی البتہ موخر الذکر دونوں پر قضا لازم نہیں ہو گی۔
جو عورت حیض و نفاس میں مبتلا ہو یا جو شخص بیماری کی حالت میں ہو، یا جو شخص حالت سفر میں ہو ان کے لئے کھانے پینے سے اجتناب ضروری نہیں ہے تاہم ان کے لئے بھی یہ حکم ہے کہ عام نگاہوں سے بچ کر پوشیدہ طور پر کھائیں پئیں۔

یہ حدیث شیئر کریں