وہ چیزیں جن سے روزہ فاسد ہوجاتا ہے اور جن سے کفارہ اور قضا دونوں لازم آتے ہیں
راوی:
سب سے پہلے یہ بات جان لینی ضروری ہے کہ روزہ فاسد ہو جانے کی صورت میں کفارہ کن لوگوں پر اور کن حالات میں لازم ہو گا۔ کفارہ اس وقت لازم ہوتا ہے جب کہ روزہ رکھنے والا مکلف یعنی عاقل و بالغ ہو، روزہ رمضان کا ہو اور رمضان ہی کے مہینے میں ہو یعنی رمضان کے قضاء روزوں میں بھی کفارہ لازم نہیں ہوتا، نیت رات ہی سے کئے ہوئے ہو اگر طلوع فجر کے بعد نیت کی ہو گی، تو روزہ توڑنے پر کفارہ لازم نہیں ہو گا، روزہ توڑنے کے بعد ایسا کوئی امر پیش نہ آئے جو کفارہ کو ساقط کر دینے والا ہو جیسے حیض و نفاس، اگر روزہ توڑنے کے بعد ان میں سے کوئی چیز پیش نہ آئے جس سے کفارہ ساقط ہو جاتا ہے ، جیسے سفر کہ اگر کوئی شخص سفر کی حالت میں روزہ توڑے گا تو کفارہ لازم نہیں آئے ہاں اگر کوئی شخص سفر سے پہلے روزہ توڑ دے گا تو کفارہ ساقط نہیں ہوتا۔ لہٰذا جب یہ تمام شرائط پائی جائیں گی اور مندرجہ ذیل مضرات صوم (روزہ کو توڑنے والی چیزوں) میں سے کوئی صورت پیش آئے گی تو کفارہ اور قضا دونوں لازم ہوں گے۔
اس کے بعد اب دیکھئے کہ وہ کون سی چیزیں اور صورتیں ہیں جن سے روزہ فاسد ہو جاتا ہے اور جن کی وجہ سے کفارہ اور قضا دونوں لازم ہوتے ہیں۔ جماع کرنا، اغلام کرنا ان دونوں صورتوں میں فاعل اور مفعول دونوں پر کفارہ اور قضا لازم آتی ہے کھانا پینا خواہ بطور غذا یا بطور دوا۔ غذائیت کے معنی اور محمول میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں۔ بعض حضرات کہتے ہیں کہ غذا کا محمول اس چیز پر ہو گا جس کو کھانے کے لئے طبیعت خواہش کرے اور اس کے کھانے سے پیٹ کی خواہش کا تقاضہ پورا ہوتا ہو۔ بعض حضرات کا قول یہ ہے کہ غذا کی چیز وہ کہلائے گی جس کے کھانے سے بدن کی اصلاح ہو اور بعض حضرات کا یہ کہنا ہے کہ غذا انہیں چیزوں کو کہیں گے جو عادۃً کھائی جاتی ہو۔
لہٰذا اگر کوئی شخص بارش کا پانی، اولہ اور برف نگل جائے یا کچا گوشت کھائے خواہ وہ مردار ہی کا کیوں نہ ہو تو کفارہ لازم ہو گا اسی طرح چربی، خشک کیا ہوا گوشت اور گیہوں کھانے سے بھی کفارہ واجب ہو جاتا ہے۔ ہاں اگر ایک آدھ گیہوں منہ میں ڈال کر چبایا جائے اور وہ منہ میں پھیل جائے تو کفارہ لازم نہیں ہوتا۔ اپنی بیوی یا محبوب کا تھوک نگل جانے سے بھی کفارہ واجب ہوتا ہے کیونکہ اس میں بھی طبیعت کی خواہش کا دخل ہوتا ہے ۔ ہاں ان کے علاوہ دوسروں کا تھوک نگلنے کی صورت میں کفارہ واجب نہیں ہوتا ، البتہ روزہ جاتا رہتا ہے اور قضا لازم آتی ہے نمک کو کم مقدار میں کھانے سے تو کفارہ لازم ہوتا ہے زیادہ مقدار میں کھانے سے نہیں۔ مستغنی میں اس قول کو روایت مختار کہا گیا لیکن خلاصہ اور بزاریہ میں لکھا ہے کہ مختار (یعنی قابل قبول اور لائق اعتماد) مسئلہ یہ ہے کہ مطلقاً نمک کھانے سے کفارہ واجب ہوتا ہے یعنی خواہ نمک زیادہ یا کم ہو۔ اگر بغیر بھنا جو کھایا جائے گا تو کفارہ لازم نہیں ہو گا۔ کیونکہ کچا جو نہیں جاتا، لیکن یہ خشک جو کا مسئلہ ہے۔ اگر تازہ خوشہ میں سے جو نکال کر بغیر بھنا ہوا بھی کھایا جائے گا تو کفارہ لازم آئے گا۔ گل ارمنی کے علاوہ وہ مٹی مثلا ملتانی وغیرہ کھانے کے بارے میں مسئلہ یہ ہے کہ اگر وہ عادۃً کھائی جاتی ہو تو اس پر بھی کفارہ لازم آئے گا اور اگر نہ کھائی جاتی ہو تو پھر کفارہ لازم نہیں ہو گا۔
ایک حدیث ہے جس کے الفاظ ہیں الغیبۃ تفطر الصیام (غیبت روزہ کو ختم کر دیتی ہے) بظاہر تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی روزہ دار غیبت کرے گا تو اس کا روزہ جاتا رہے گا لیکن علماء امت نے اجتماعی طریقے پر اس حدیث کی تاویل یہ کی ہے کہ حدیث کی مراد یہ نہیں ہے کہ غیبت کرنے سے روزہ جاتا رہتا ہے بلکہ اس کی مراد یہ ہے کہ جو روزہ دار غیبت میں مشغول ہو گا اس کے روزے کا ثواب جاتا رہے گا۔
حدیث اور اس کی تاویل ذہن میں رکھئے اور اب یہ مسئلہ سنئے کہ اگر کسی شخص نے کسی کی غیبت کی اور اس کے بعد قصدا کھانا کھا لیا تو اس پر کفارہ لازم آئے گا خواہ اسے یہ حدیث معلوم ہو یا معلوم نہ ہو اور خواہ حدیث کی مذکورہ بالا تاویل اس کے علم میں ہو یا علم میں نہ ہو نیز یہ کہ مفتی نے کفارہ لازم ہونے کا فتویٰ دیا ہو یا نہ دیا ہو کیونکہ حدیث اور اس کی تاویل سے قطع نظر غیبت کے بعد روزہ کا ختم ہو جانا قطعا خلاف قیاس ہے۔
اسی طرح ایک حدیث ہے افطر الحاجم والمحجوم (پچھنے لگانے والے اور لگوانے والے دونوں کا روزہ ٹوٹ جاتا ہے) اس حدیث کی بھی یہ تاویل کی گئی ہے کہ پچھنے لگوانے سے چونکہ روزہ دار کو کمزوری لاحق ہو جاتی ہے اور زیادہ خون نکلنے کی صورت میں روزہ توڑ دینے کا خوف ہو سکتا ہے اسی طرح پچھنے لگانے والے کے بارے میں بھی یہ امکان ہوتا ہے کہ خون کا کوئی قطرہ اس کے پیٹ میں پہنچ جائے۔ اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے احتیاط کے پیش نظر یہ فرمایا کہ روزہ جاتا رہتا ہے ورنہ حقیقت میں پچھنے لگانے یا لگوانے سے روزہ ٹوٹتا نہیں۔
حدیث الغیبہ تفطر الصیام کے برخلاف اس کا مسئلہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص پچھنے لگانے یا لگوانے کے بعد اس حدیث کے پیش نظر اس گمان کے ساتھ کہ روزہ جاتا رہا ہے ۔ قصدا کچھ کھا پی لے تو اس پر کفارہ صرف اسی صورت میں لازم آئے گا جب کہ وہ اس حدیث کی مذکورہ بالا تاویل سے جو جمہور علماء سے منقول ہے واقف ہو یا یہ کہ کسی فقیہ اور مفتی نے یہ فتویٰ دیا ہے کہ پچھنے لگوانے یا لگانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے اگرچہ اس کا یہ فتویٰ حقیقت کے خلاف ہو گا اور اس کی ذمہ داری اسی پر ہو گی اور اگر اسے حدیث مذکور کی تاویل معلوم نہ ہو گی تو کفارہ لازم نہیں ہو گا الغیبۃ تفطر الصیام و افطر الحاجم والمحجوم دونوں حدیثوں کے احکام میں مذکورہ بالا فرق اس لئے ہے کہ غیب سے روزہ کا ٹوٹنا نہ صرف یہ کہ خلاف قیاس ہے بلکہ اس حدیث کی مذکورہ بالا تفریق تمام علماء امت کا اتفاق ہے جب کہ پچھنے سے روزہ کا ٹوٹ جانا نہ صرف یہ کہ خلاف قیاس نہیں ہے بلکہ اس حدیث کی مذکورہ بالا تفریق پر تمام علماء امت کا اتفاق ہے کیونکہ بعض علماء مثلا امام اوزاعی وغیرہ اس حدیث کے ظاہری مفہوم پر عمل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پچھنے لگانے یا لگوانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے، ایسے ہی کسی شخص نے شہوت کے ساتھ کسی عورت کو ہاتھ لگایا، یا کسی عورت کا بوسہ لیا، یا کسی عورت کے ساتھ ہم خواب ہوا، یا کسی عورت کے ساتھ بغیر انزال کے مباشرت فاحشہ کی یا سرمہ لگایا، یا فصد کھلوائی یا کسی جانور سے بدفعلی کی مگر انزال نہیں ہوا یا اپنی دبر میں انگلی داخل کی اور یہ گمان کر کے کہ روزہ جاتا رہے گا۔ اس نے قصدا کچھ کھا پی لیا تو اس صورت میں بھی کفارہ اسی وقت لازم ہو گا جب کہ کسی فقیہ یا مفتی نے مذکورہ بالا چیزوں کے بارے میں یہ فتویٰ دیا ہو کہ ان سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے اگرچہ اس کا یہ فتویٰ غلط اور حقیقت کے خلاف ہو گا اگر مفتی فتویٰ نہیں دے گا تو کفارہ لازم نہیں ہو گا کیونکہ مذکورہ بالا چیزوں سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔
اس عورت پر کفارہ واجب ہو گا جس نے روزہ کی حالت میں کسی ایسے مرد سے برضا و رغبت اور بخوشی جماع کرایا جو جماع کرنے پر مجبور کر دیا گیا تھا چنانچہ کفارہ صرف عورت پر واجب ہو گا اس مرد پر نہیں۔
کسی عورت نے یہ جانتے ہوئے کہ فجر طلوع ہو گئی ہے اسے اپنے خاوند سے چھپایا ، چنانچہ اس کے خاوند نے اس سے صحبت کر لی اور اسے یہ معلوم نہیں تھا کہ فجر طلوع ہو گئی ہے تو اس صورت میں بھی صرف عورت پر کفارہ واجب ہوا اور مرد پر واجب نہیں ہو گا۔