مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ جنازوں کا بیان ۔ حدیث 50

گناہوں کا کفارہ بیماری

راوی:

وعن عامر الرام قال : ذكر رسول الله صلى الله عليه و سلم الأسقام فقال : " إن المؤمن إذا أصابه السقم ثم أعفاه الله منه كان كفارة لما مضى من ذنوبه وموعظة له فيما يستقبل . وإن المنافق إذا مرض ثم أعفي كان كالبعير عقله أهله ثم أرسلوه فلم يدر لم عقلوه ولم يدر لم أرسلوه " . فقال رجل يا رسول الله وما الأسقام ؟ والله ما مرضت قط فقال : " قم عنا فلست منا " . رواه أبو داود

حضرت عامر رامی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (ایک مرتبہ) بیماریوں کا ذکر کیا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ " مؤمن جب کسی بیماری میں مبتلا ہوتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ اسے اس بیماری سے نجات دیتا ہے تو وہ بیماری (نہ صرف یہ کہ) اس کے پچھلے گناہوں کا کفارہ ہوتی ہے (بلکہ) زمانہ آئندہ کے لئے باعث نصیحت (بھی) ہوتی ہے۔ یعنی بیماری اسے متنبہ کرتی ہے۔ (چنانچہ وہ آئندہ گناہوں سے بچتا ہے) اور جب منافق بیمار ہوتا ہے اور پھر اسے بیماری سے نجات دی جاتی ہے تو اس کی مثال اس اونٹ کی سی ہوتی ہے جسے اس کے مالک نے باندھا اور پھر چھوڑ دیا اور اونٹ نے یہ نہ جانا کہ مالک نے اسے کیوں باندھا تھا اور کیوں چھوڑ دیا؟ (یہ سن کر) ایک شخص نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! بیماری کیا چیز ہے؟ میں تو کبھی بھی بیمار نہیں ہوا! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا! ہمارے پاس سے اٹھ کھڑے ہو! تم ہم میں سے نہیں ہو!

تشریح
مؤمن بیماری سے صحت پانے کے بعد متنبہ ہو جاتا ہے چنانچہ وہ سمجھتا ہے کہ میں اپنے گناہوں کی وجہ سے بیماری میں مبتلا ہوا تھا اس لئے وہ نہ صرف یہ کہ اپنے گزشتہ گناہوں پر نادم شرمسار ہوتا ہے اور توبہ کرتا ہے بلکہ آئندہ گناہوں سے بھی بچتا ہے اس کے برعکس منافق کا حال یہ ہے کہ جب بیماری سے صحت یاب ہوتا ہے تو اس کی مثال بالکل اس اونٹ کی سی ہوتی ہے کہ جسے اگر اس کا مالک باندھ دے تو یہ نہ جانے کہ مجھے باندھا کیوں ہے اور اگر چھوڑ دے تو یہ نہ سمجھے کہ مجھے چھوڑا کیوں ہے۔چنانچہ منافق بیماری کی وجہ سے متنبہ نہیں ہوتا نہ تو وہ نصیحت و عبرت پکڑتا ہے اور نہ گناہوں پر نادم و شرمسار ہو کر توبہ کرتا ہے اسی لئے اس کی بیماری نہ تو اس کے گزشتہ گناہوں کا کفارہ ہوتی ہے اور زمانہ آئندہ میں اس کے لئے باعث نصیحت و عبرت ہوتی ہے کہ وہ گناہوں سے بچ سکے رضی اللہ (فاولئک کالانعام بل ھم اضل اولئک ھم الغافلون)۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد گرامی" تم ہم میں سے نہیں ہو" کا مطلب یہ ہے کہ تم ہمارے اہل طریقہ میں سے نہیں ہو، کیونکہ جس طرح ہم بیماری اور بلاؤں میں مبتلا ہوئے ہیں اس طرح تم مبتلا نہیں ہوئے ہو۔

یہ حدیث شیئر کریں