شہادت ہلال
راوی:
وعن ابن عباس قال : " جاء أعرابي إلى النبي صلى الله عليه و سلم فقال : إني رأيت الهلال يعني هلال رمضان فقال : " أتشهد أن لا إله إلا الله ؟ " قال : نعم قال : " أتشهد أن محمدا رسول الله ؟ " قال : نعم . قال : " يا بلال أذن في الناس أن يصوموا غدا " . رواه أبو داود والترمذي والنسائي وابن ماجه والدارمي
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کہتے ہیں کہ ایک اعرابی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ میں نے رمضان کا چاند دیکھا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ تم کیا اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے ۔ اس نے کہا کہ ہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے پیغمبر ہیں؟ اس نے کہا ہاں اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ بلال لوگوں میں اعلان کر دو کہ کل روزہ رکھیں۔ (ابو داؤد، ترمذی، نسائی ، ابن ماجہ، دارمی)
تشریح
یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جو شخص مستور الحال ہو یعنی اس کا فاسق ہونا معلوم نہ ہو تو رمضان کے چاند کے بارے میں اس کی شہادت معتبر اور قابل قبول ہو گی نیز یہ کہ رمضان کے چاند کی گواہی دیتے ہوئے لفظ شہادت کا استعمال شرط نہیں ہے۔
نیز اس حدیث سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ ہلال رمضان شریف شہادت میں صرف ایک شخص کی گواہی قبول کی جا سکتی ہے چنانچہ حنفی مسلک میں صحیح مسئلہ یہی ہے کہ ہلال رمضان کی رویت ایک عادل یا مستور الحال شخص کی شہادت سے ثابت ہو جاتی ہے نیز یہ کہ ہلال رمضان کی شہادت میں لفظ شہادت کا استعمال شرط نہیں ہے مگر ایک شخص کی گواہی اسی صورت میں معتبر ہو گی جب کہ مطلع ابر و غبار آلود ہو اگر عید کی چاند رات کو ابر و غبار ہو تو پھر دو مرد یا ایک مرد اور دو عادل و آزاد عورتوں کی شہادت ہی معتبر ہو گی نیز یہ کہ اس موقع پر لفظ شہادت کا استعمال بھی شرط ہو گا پھر موقع و محل کے پیش نظر شہادت کی صورت بھی بدلتی رہتی ہے ۔ مطلع صاف ہو تو جماعت کثیرہ کی شہادت ضروری ہو گی۔