نجوم کے قواعد سے چاند کا ثبوت معتبر نہیں ہوتا
راوی:
وعن ابن عمر قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " إنا أمة أمية لا تكتب ولا تحسب الشهر هكذا وهكذا وهكذا " . وعقد الإبهام في الثالثة . ثم قال : " الشهر هكذا وهكذا وهكذا " . يعني تمام الثلاثين يعني مرة تسعا وعشرين ومرة ثلاثين "
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ ہم اہل عرب امی قوم ہیں کہ حساب کتاب نہیں جانتے مہینہ اتنا اور اتنا اور اتنا ہوتا ہے (لفظ اتنا تین مرتبہ کہتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں دو مرتبہ بند کیں اور پھر کھول دیں) اور تیسری مرتبہ میں ہاتھوں کی انگلیاں بند کر کے پھر نو انگلیاں تو کھول دیں اور انگوٹھا بند کئے رکھا جس کا مطلب یہ تھا کہ کبھی تو مہینے میں ایک کم تیس دن ہوتے ہیں یعنی انتیس کا مہینہ ہوتا ہے اور پھر فرمایا مہینہ اتنا اور اتنا (اور اس مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تیس کا عدد بتانے لئے پہلے کی طرح تیس مرتبہ میں انگوٹھا بند نہیں رکھا) یعنی پورے تیس دن کا ہوتا ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مطلب یہ تھا کہ کبھی تو مہینہ انتیس دن کا ہوتا ہے اور کبھی تیس دن کا ہوتا ہے۔ (بخاری ومسلم)
تشریح
اہل عرب کو امی اس لئے فرمایا گیا کہ وہ جیسے ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتے تھے ویسے ہی رہتے تھے پڑھتے لکھتے نہیں تھے۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ اکثر کے اعتبار سے فرمایا ہے کیونکہ اگرچہ عرب میں تعلیم عام نہیں تھی اور اکثریت بے پڑھے لکھے لوگوں کی تھی مگر پھر بھی کچھ نہ کچھ لوگ علم کے زیور سے آراستہ ہوتے ہی تھے یا اس جملے سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مراد یہ تھی کہ اہل عرب حساب کتاب اچھی طرح نہیں جانتے۔
بہرحال حدیث کے معنی یہ ہیں کہ نجوم کے قواعد پر عمل کرنا ہمارا شیوہ اور طریقہ نہیں ہے اور نہ نجوم کے قواعد و حساب سے جیسا کہ جنتری وغیر میں لکھا ہوتا ہے چاند کا ثبوت معتبر ہو سکتا ہے بلکہ اس بارے میں ہمارا علم صرف رویت ہلال سے متعلق ہے کہ اگر چاند دیکھا جائے گا یا چاند کی رویت شرعی قواعد و ضوابط کے تحت ثابت ہو جائے گی تو روزہ شروع ہو گا یا اس کا اختتام ہو گا اسی بات کے آخر میں وضاحت کی گئی کہ کسی مہینے میں چاند انتیس تاریخ کو ہوتا ہے اور کسی مہینے میں تیس تاریخ کو۔
روایت کی آخری عبارت کے دونوں جملے یعنی تمام الثلثین اور یعنی مرۃ تسعا الخ راوی کے الفاظ ہیں پہلے جملہ سے تو راوی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آخری اشارے کو بیان کیا ہے اور دوسرے جملے کے ذریعے دونوں چیزوں کی وضاحت کر دی ہے۔