ماہ رمضان کے فضائل وبرکات
راوی:
عن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " أتاكم رمضان شهر مبارك فرض الله عليكم صيامه تفتح فيه أبواب السماء وتغلق فيه أبواب الجحيم وتغل فيه مردة الشياطين لله فيه ليلة خير من ألف شهر من حرم خيرها فقد حرم " . رواه أحمد والنسائي
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تمہارے لئے رمضان کا بابرکت مہینہ آ گیا ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے تمہارے اوپر روزے فرض کئے ہیں اس مہینے میں آسمان کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں نیز اسی مہینے میں سرکش شیطانوں کو طوق پہنایا جاتا ہے اور اس میں یعنی پورے ماہ رمضان کی راتوں میں یا آخری عشرہ رمضان کی راتوں میں اللہ کی ایک خاص رات ہے جو باعتبار ثواب کے ہزار مہینوں سے بہتر ہے (یعنی اس ایک رات میں عمل کرنا ان ہزار مہینوں میں عمل کرنے سے کہ جن میں لیلۃ القدر نہ ہو کہیں زیادہ افضل و بہتر ہے) لہٰذا جو شخص اس رات کی بھلائی سے محروم رہا وہ ہر بھلائی سے محروم رہا۔ (احمد ونسائی)
تشریح
ملا علی قاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کے الفاظ و تغل فیہ مردۃ الشیاطین سے یہ مفہوم ہوتا ہے کہ ماہ رمضان میں صرف وہی شیطان قید کئے جاتے ہیں جو سرکش اور سرغنہ ہیں گویا اس طرح وہ اشکال خود بخود رفع ہو جاتا ہے جو ابھی اس سے پہلی حدیث کی تشریح کے ضمن میں گزرا ہے اس صورت میں اس حدیث نمبر ٥ کے الفاظ صفدت الشیاطین و مردۃ کا عطف شیطان پر عطف تفسیر و بیان کی نوعیت سے ہو گا۔
ملا علی قاری کے اس قول کی وضاحت یہ ہے کہ اس سے پہلے حدیث کی تشریح میں اس اشکال کی طرف جو یہ اشارہ کیا گیا تھا کہ شیاطین کے مقید ہو جانے کے باوجود بھی جو لوگ اس ماہ مبارک میں گناہ میں مبتلا ہوتے ہیں اس کی کیا وجہ ہے؟ اس کا ایک جواب تو یہ دیا گیا تھا کہ اس کی وجہ وہ اثرات ہوتے ہیں جو رمضان سے قبل ایام میں شیطان کے بہکانے کی وجہ سے ان کی طبائع بند میں راسخ ہوتے ہیں۔
اسی اشکال کا ایک دوسرا جواب ملا علی قاری نے اس حدیث کے مفہوم کی روشنی میں دیا ہے کہ رمضان میں دراصل وہی شیطان مقید ہوتے ہیں جو سرکش اور سرغنہ ہوتے ہیں چھوٹے موٹے قسم کے شیطان چونکہ آزاد رہتے ہیں اس لئے ایسے لوگوں کو بہکاتے ہیں جن کی وجہ سے رمضان میں بھی گناہوں کا صدور بند نہیں ہوتا۔
مگر اسی باب کی پہلی حدیث سے چونکہ یہ ثابت ہو چکا ہے کہ مطلقاً شیاطین قید کر دئیے جاتے ہیں اس میں سرکش شیطان کی کوئی تخصیص نہیں ہے لہٰذا ملا علی قاری کا یہ جواب کچھ زیادہ جاندار معلوم نہیں ہوتا۔
اس سلسلے میں حضرت مولنا شاہ محمد اسحق دہلوی رحمہ اللہ کی تقریر سب سے بہتر ہے جس سے نہ صرف یہ کہ مسئلہ مذکور میں کوئی اشکال باقی نہیں رہتا بلکہ اس بارے میں منقول تمام احادیث میں تطبیق بھی ہو جاتی ہے۔ حضرت موصوف فرماتے ہیں کہ سرکش شیطانوں کا قید ہونا جیسا کہ یہ حدیث بتا رہی ہے مخصوص افراد کی نسبت سے ہے اسی طرح مطلقا شیاطین کا قید ہونا جیسا کہ اس باب کی پہلی حدیث سے ثابت ہوا دوسرے مخصوص افراد کی نسبت سے ہے مطلب یہ ہے کہ سرکش شیاطین کو تو فاسق لوگوں کو بہکانے سے روک دیا جاتا ہے چنانچہ ایسے لوگ رمضان میں گناہ کم کرتے ہیں البتہ چھوٹے موٹے شیطان انہیں بہکاتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے کچھ نہ کچھ گناہ ان سے سرزد ہوتے رہتے ہیں اور مطلقاً شیاطین صلحاء اور نیک لوگوں کو بہکانے سے روک دئیے جاتے ہیں چنانچہ وہ کبیرہ گناہوں سے باز رہتے ہیں اور اگر بتقاضائے بشریت ان سے کوئی گناہ سرزد ہو جاتا ہے تو وہ توبہ اور استغفار کرتے ہیں۔
مذکورہ بالا اشکال کا ایک دوسرا جواب یہ ہے کہ کچھ گناہ تو ایسے ہوتے ہیں جو شیاطین کے بہکانے سے سرزد ہوتے ہیں اور کچھ گناہ ایسے ہوتے ہیں جو خود اپنے نفس کے تقاضہ سے صادر ہوتے ہیں چنانچہ جو گناہ شیطان کے بہکانے سے سرزد ہوتے ہیں ان گناہوں سے تو لوگ رمضان میں محفوظ رہتے ہیں اور جو گناہ خود اپنے نفس کے تقاضہ سے ہوتے ہیں وہ رمضان میں بھی صادر ہوتے رہتے ہیں۔
من حرم خیرہا (جو شخص اس رات کی بھلائی سے محروم رہا) کا مطلب یہ ہے کہ اسے اس مقدس رات میں عبادت الٰہی کے لئے شب بیدایری کی توفیق نہیں ہوتی اگر وہ کم سے کم رات کے ابتدائی اور آخری حصوں ہی میں جاگ لیتا اور اللہ کی بندگی کرتا جب بھی اسے اس رات میں عبادت کی فضیلت حاصل ہو جاتی کیونکہ منقول ہے کہ جس شخص نے کم سے کم عشاء اور فجر کی نماز جماعت سے پڑھ لی تو اسے بھی لیلۃ القدر کی سعادتوں سے اپنا حصہ مل جائے گا۔
فقد حرم (وہ ہر بھلائی سے محروم رہا) بطور مبالغہ ارشاد فرمایا گیا ہے اور اس سے مراد کامل ثواب سے محروم رہنا ہے۔