صدقہ میں دیا ہو امال واپس ہو جانے کی ایک صورت
راوی:
وعن بريدة قال : كنت جالسا عند النبي صلى الله عليه و سلم إذ أتته امرأة فقالت يا رسول الله إني كنت تصدقت على أمي بجارية وإنها ماتت قال : " وجب أجرك وردها عليك الميراث " . قالت يا رسول الله إنه كان عليها صوم شهر أفأصوم عنها قال : " صومي عنها " . قالت يا رسول الله إنها لم تحج قط أفأحج عنها قال : " نعم حجي عنها " . رواه مسلم
حضرت بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ دن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک ایک عورت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کرنے لگی کہ یا رسول اللہ! میں نے ایک لونڈی اپنی ماں کو بطور صدقہ دی تھی اب میری ماں مر گئی ہے (کیا میں اسے واپس لے لوں اور اس طرح وہ لونڈی دوبارہ میری ملکیت میں آ جائے گی یا نہیں؟ ) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا (صدقہ دینے کی وجہ سے) تمہارا ثواب تو ثابت ہو گیا (یعنی اس کا ثواب تمہیں یقینا مل گیا) اور اب میراث نے اس لونڈی کو تمہیں واپس کر دیا۔ اس عورت نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میری ماں کے ذمہ مہینہ بھر کے روزے تھے تو میں اس کی طرف حقیقۃ یا حکما روزے رکھ سکتی ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اس کی طرف سے روزے رکھ لو۔ پھر اس عورت نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میری ماں نے کبھی حج نہیں کیا تو کیا میں اس کی طرف سے حج کر لوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہاں اس کی طرف سے حج کر لو۔ (مسلم)
تشریح
وردہا علیک المیراث (میراث نے تمہیں اس لونڈی کو واپس کر دیا) میں میراث کی طرف واپس کرنے کی نسبت مجازی ہے چنانچہ اس جملے کے حقیقی معنی یہ ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ نے اس لونڈی کو میراث کے ذریعے تمہیں واپس کر دیا اور وہ لونڈی بسبب ارث کے تمہاری ملکیت ہو گئی گویا وہ تمہارے پاس حلال ذریعے اور حلال طریقے سے آئی۔
اس مفہوم کا حاصل یہ ہے کہ صدقہ میں دیا ہوا مال واپس لینے کی جو ممانعت کی گئی ہے صورت مذکورہ کا تعلق اس ممانعت سے نہیں ہے کیونکہ یہ امر اختیاری نہیں ہے۔ بلکہ یہ وہ صورت ہے کہ صدقہ میں دیا ہوا مال بطور میراث ملکیت میں آیا ہے جو ظاہر ہے کہ بالکل جائز ہے ۔
سائلہ کو روزے رکھنے کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اجازت کا مطلب یہ تھا کہ حقیقۃ روزہ نہ رکھو بلکہ حکما رکھو اور فدیہ کی ادائیگی ہے چنانچہ جمہور علماء کا مسلک یہی ہے کہ اگر کسی شخص کا انتقال اس حالت میں ہو جائے کہ اس کے ذمہ فرض روزے ہوں تو یہ کسی کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ مرنے والے کی طرف سے روزے نہ رکھے بلکہ اس صورت میں حکم یہ ہے کہ اس کے ورثاء اس کی طرف سے فدیہ ادا کریں۔
اس مسئلے کو تفصیل کے ساتھ اختلاف مذاہب ان شاء اللہ " روزہ کی قضا کے بیان " کے ضمن میں بیان کیا جائے گا تاہم اس موقع پر اصولی طور پر یہ جان لیجئے یہ عبادت کی کئی قسمیں ہیں اول عبادت مالی جس کا تعلق صرف مال کی ادائیگی سے ہو گا جیسے زکوۃ دوم عبادت بدنی کہ جس کا تعلق صرف نفس و بدن کی مشقت و محنت سے ہو جیسے نماز اور سوم مرکب یعنی وہ عبادت جس کا تعلق مال اور نفس و بدن دونوں سے ہو جیسے حج۔
لہٰذا عبادت مالی میں تو نیابت جائز ہے خواہ حالت اختیار ہو یا حالت اضطرار و ضرورت کیونکہ اس کا مقصود فقیر و مفلس کی حاجت روائی ہے سو وہ نائب کے ادا کرنے سے بھی ادا ہو جاتا ہے۔ عبادت بدنی میں نیابت کسی حال میں بھی جائز نہیں ہے کیونکہ عبادت بدنی کا مقصود اپنے نفس کو محنت و مشقت میں مبتلا کرنا ہوتا ہے جو نائب کے کرنے سے حاصل نہیں ہوتا۔ مرکب میں نیابت کسی مجبوری و ضرورت کے وقت تو جائز ہے لیکن حالت قدرت و اختیار میں جائز نہیں ہے البتہ نفلی حج کی صورت میں حالت قدرت و اختیار میں بھی نیابت جائز ہے کیونکہ نفل کا دائرہ وسیع تر ہے۔
حدیث کے آخری الفاظ نعم حجی عنہا (ہاں اس کی طرف سے حج کرو۔ کا مفہوم دونوں صورتوں سے متعلق ہے کہ خواہ اس پر حج واجب تھا یا نہیں ، اسی طرح اس نے حج کی وصیت کی تھی یا نہیں؟چنانچہ وارث کے لئے جائز ہے کہ وہ مورث کی طرف سے چاہے تو کسی دوسرے کو حج کرا دے اور چاہے تو خود ہی حج کر لے، خود حج کرنے کی صورت میں مورث کی اجازت شرط نہیں ہے جب کہ اگر کسی دوسرے سے حج کرائے تو اس کے لئے مورث کی اجازت شرط ہو گی۔ واللہ اعلم
اللہ تعالیٰ کی توفیق اور اس کی مدد سے " کتاب الزکوۃ " پوری ہوئی اب " کتاب الصوم " شروع ہوتی ہے رب العزت اس کی تکمیل کی بھی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔