دوسروں کے ساتھ حسن سلوک کا حکم
راوی:
وعن ابن عمر قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " من استعاذ منكم بالله فأعيذوه ومن سأل بالله فأعطوه ومن دعاكم فأجيبوه ومن صنع إليكم معروفا فكافئوه فإن لم تجدوا ما تكافئوه فادعوا له حتى تروا أن قد كافأتموه " . رواه أحمد وأبو داود والنسائي
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ جو شخص تم سے بواسطہ اللہ پناہ مانگے اسے پناہ دو۔ جو شخص تم سے اللہ کے نام پر کچھ مانگے اس کا سوال پورا کرو۔ جو شخص تمہیں کھانے کے لئے بلائے یعنی تمہاری دعوت کرے تو اس کی دعوت قبول کرو (بشرطیکہ کوئی حسی یا شرعی مانع نہ ہو) جو شخص تمہارے ساتھ (قولی یا فعلی) احسان کرے تو تم بھی اس کا بدلہ دو (یعنی تم بھی اس کے ساتھ ویسا ہی احسان کرو) اور اگر تم مال و زر نہ پاؤ کہ اس کا بدلہ چکا سکو تو اپنے محسن کے کے لئے دعا کرو جب تک کہ تم یہ جان لو کہ تم نے اس کا بدلہ چکا دیا ہے۔ (احمد، ابوداؤد، نسائی)
تشریح
جو شخص تم سے بواسطہ اللہ پناہ مانگے ، کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص خود تمہاری ذات کی وجہ سے یا کسی دوسرے کی طرف سے کسی حادثے و شر میں مبتلا ہو اور وہ اس وقت اللہ کا واسطہ دے کر تم سے پناہ مانگے یعنی اس وقت یوں کہے کہ میں اللہ کا واسطہ دے کر تم سے درخواست کرتا ہوں کہ مجھے اس مصیبت سے نجات دلاؤ تو تمہیں چاہئے تو کہ تم اس کی درخواست قبول کرو۔ اور اللہ تعالیٰ کے نام کی تعظیم کے پیش نظر اس کو اس آفت و مصیبت سے بچاؤ۔ من استعاذ منکم باللہ میں باللہ کے حرف با کے بارے میں بھی یہ احتمال ہے کہ لفظ استعاذ کا صلہ واقع ہو رہا ہو اس صورت میں اس جملے کے یہ معنی ہوں گے کہ جو شخص کسی آفت و مصیبت کے وقت اللہ سے پناہ مانگ رہا ہو تم اس سے تعرض نہ کرو بلکہ اسے پناہ دو اور اس کو آفت و مصیبت سے نجات دلانے کی کوشش کرو۔
حدیث کے آخری الفاظ حتی ترد الخ جب تک تم یہ نہ جان لو، کا مطلب یہ ہے کہ تم اس کے لئے اس وقت تک مکرر سہ کرر دعا کرتے رہو جب تک کہ تمہیں یہ یقین نہ ہو جائے کہ تم نے اس کا حق ادا کر دیا ہے۔
ایک دوسری روایت میں ارشاد گرامی منقول ہے کہ جس شخص کے ساتھ احسان کیا گیا اور اس نے احسان کرنے والے سے کہا جزاک اللہ خیرا تو اس نے اپنے محسن کی تعریف اور اس کے احسان کے بدلے میں مبالغہ کیا۔
لہٰذا یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جس شخص نے اپنے کسی محسن کے لئے ایک مرتبہ جزاک اللہ خیرا کہا تو اس نے اس کے احسان کا بدلہ چکا دیا بلکہ حق سے بھی زیادہ بدلہ دیا، کیونکہ یہ جملہ کہہ کر گویا اس نے اپنے نفس کو بدلہ چکانے میں عاجز جانا اور اس کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دیا کہ سب سے بہتر اجر اور بدلہ وہی دے سکتا ہے، لہٰذا یہ جملہ ایک بار کہنا مکرر سہ کرر دعا کرنے کے برابر ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا معمول
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا معمول تھا کہ جب کوئی سائل ان کے لئے دعا کرتا تو وہ بھی پہلے اسی طرح اس کے لئے دعا کرتیں پھر اسے صدقہ دیتیں، لوگوں نے اس کا سبب پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ اگر میں اس کے لئے دعا نہ کروں تو اس کا حق اور میرا حق برابر ہو جائے گا کیونکہ جب اس نے میرے لئے دعا کی اور میں نے اسے صرف صدقہ دے دیا (تو اس طرح دونوں کے حسنات برابر ہو گئے) لہٰذا میں بھی اس کے لئے دعا کردیتی ہوں تاکہ میری دعا تو اس کی دعا کا بدلہ ہو جائے اور جو صدقہ میں نے دیا ہے وہ خالص رہے (اس طرح دونوں کا حق برابر نہیں رہتا بلکہ میری نیکیاں بڑھ جاتی ہیں)