ہمسایہ کا خیال رکھو
راوی:
وعن عائشة قالت : يا رسول الله إن لي جارين فإلى أيهما أهدي ؟ قال : " إلى أقربهما منك بابا " . رواه البخاري
ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے عرض کیا، یا رسول اللہ! میرے دو پڑوسی ہیں میں ان میں سے کسے تحفہ بھیجوں؟ (یعنی پہلے یا زیادہ کسے دوں؟) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ اس پڑوسی کو جس کا دروازہ تم سے زیادہ قریب ہو۔ (بخاری)
تشریح
اگر کسی کے دو پڑوسی ہوں اس طرح کہ ان میں ایک پڑوسی کی دیوار اپنے سے زیادہ قریب ہو اور دوسرے پڑوسی کا دروازہ زیادہ قریب ہو تو قریبی دروازہ والے ہی کو مقدم رکھا جائے۔
لیکن اتنی بات سمجھ لیجئے کہ یہاں حدیث میں" حصر" مراد نہیں ہے، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد کا مطلب یہ نہیں ہے کہ صرف اسی کو دیا جائے دوسرے کو نہ دیا جائے۔ بلکہ مراد یہ ہے کہ پہلے یا زیادہ اس پڑوسی کو بھیجا جائے جس کا دروازہ قریب ہو اور اس کی وجہ بظاہر یہ معلوم ہوتی ہے کہ جس پڑوسی کا دروازہ زیادہ قریب ہوتا ہے اور اس سے ملنا جلنا اور اس کے یہاں آنا جانا زیادہ رہتا ہے جس کی وجہ سے اس کے حالات کا بھی زیادہ علم رہتا ہے لہٰذا اس کے ساتھ محبت و سلوک کا معاملہ کرنا اولیٰ ہے۔