پانی ونمک دینے سے انکار نامناسب ہے
راوی:
وعن بهيسة عن أبيها قالت : قال : يا رسول الله ما لشيء الذي لا يحل منعه ؟ قال : " الماء " . قال : يا نبي الله ما الشيء الذي لا يحل منعه ؟ قال : " الملح " . قال : يا نبي الله ما لاشيء الذي لا يحل منعه ؟ قال : " أن تفعل الخير خير لك " . رواه أبو داود
حضرت بہیسہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اپنے والد مکرم سے نقل کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ انہوں نے ( یعنی ان کے والد نے ) عرض کیا کہ یا رسول اللہ! وہ کونسی چیز ہے جس سے منع کرنا اور اس کے دینے سے انکار کرنا حلال نہیں ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ " پانی" انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اور کون سی چیز ہے جس کو دینے سے انکار کرنا حلال نہیں ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نمک۔ انہوں نے پھر عرض کیا کہ یا رسول اللہ وہ کونسی چیز ہے جس سے منع کرنا حلال ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ بھلائی کرنا جو تمہارے لئے بہتر ہے۔ ( ابوداؤد )
تشریح
" پانی" کا مطلب یہ ہے کہ اگر تمہاری زمین میں کنواں و تالاب ہے یا تمہارے گھر میں نل وغیرہ ہے اس سے کوئی شخص پانی لیتا ہے تو اسے پانی لینے روکنا مناسب نہیں ہے۔ اسی طرح اگر تم میں سے کوئی شخص پانی مانگتا ہے اور تمہارے پاس تمہاری ضرورت سے زائد پانی موجود ہے تو اسے دینے سے انکار نہ کرو، اسی طرح نمک دینے سے انکار نہ کرو، کیونکہ لوگوں کو نمک کی بہت زیادہ احتیاج و ضرورت رہتی ہے اور لوگ اسے لیتے دیتے ہی رہتے ہیں۔ پھر یہ کہ نمک جیسی چیز سے انکار کرنا ویسے بھی کوئی معنی نہیں رکھتا۔ کیونکہ یہ انتہائی عام اور سستی چیز ہے جس کی کوئی وقعت و قدر نہیں ہوتی۔
حدیث کا آخری جملہ تمام بھلائیوں اور نیکیوں پر حاوی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ تم سے جو کچھ بھی ہو سکے دیتے رہو، اور جو نیکی و بھلائی کر سکو کرو، نیکی و بھلائی کے کاموں سے نہ تو اپنے آپ کو باز رکھنا درست ہے اور نہ دوسروں کو نیکی و بھلائی سے روکنا حلال ہے ، گویا حدیث میں پہلے چند بھلائیوں کو بطور خاص ذکر کرنے کے بعد یہ جملہ ارشاد فرمانا " تعمیم بعد تخصیص" ہے اور اس طرف اشارہ ہے کہ لایحل مفہوم کے اعتبار سے لاینبغی کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے اس طرح حدیث کا مفہوم یہ ہو گا کہ ان چیزوں سے منع کرنا اور ان کے دینے سے انکار کرنا مناسب نہیں ہے۔