مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ صدقہ کی فضیلت کا بیان ۔ حدیث 387

خدا کی راہ میں خرچ کیا جانے والا غیر حلال مال قبول نہیں ہوتا

راوی:

وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " من تصدق بعدل تمرة من كسب طيب ولا يقبل الله إلا الطيب فإن الله يتقبلها بيمينه ثم يربيها لصاحبها كما يربي أحدكم فلوه حتى تكون مثل الجبل "

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو شخص کھجور برابر (خواہ صورت میں خواہ قیمت میں) حلال کمائی میں خرچ کرے (اور یہ جان لو کہ ) اللہ تعالیٰ صرف مال حلال قبول کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اپنے داہنے ہاتھ سے قبول کرتا ہے اور پھر اس صدقہ کو صدقہ دینے والے کے لئے اسی طرح پالتا ہے۔ جیسا کہ تم میں سے کوئی شخص اپنا بچھڑا پالتا ہے یہاں تک کہ وہ (صدقہ یا اس کا ثواب) پہاڑ کی مانند ہو جاتا ہے۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
کسب کے معنی ہیں جمع کرنا یہاں " کسب طیب" سے مراد وہ مال ہے جسے حلال ذریعوں سے جمع کیا جائے یعنی شرعی اصولوں کے تحت ہونے والی تجارت و صنعت زراعت و ملازمت اور وراثت یا حصہ میں حاصل ہونے والا مال۔
" ولا یقبل اللہ الا الطیب" (اللہ تعالیٰ صرف حلال مال قبول کرتا ہے) میں اسی طرف اشارہ ہے کہ بارگاہ الوہیت میں صرف وہی صدقہ قبول ہوتا ہے جو حلال مال کا ہو، غیر حلال مال قبول نہیں ہوتا نیز اس سے یہ نکتہ بھی پیدا ہوا کہ حلال مال اچھی اور نیک جگہ ہی خرچ ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ اسے اپنے داہنے ہاتھ سے قبول کرتا ہے۔ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں خرچ کیا جانے والا حلال مال بارگاہ الوہیت میں کمال قبول کو پہنچتا ہے اور اللہ تعالیٰ حلال مال خرچ کرنے والے سے بہت زیادہ خوش ہوتا ہے اسی مفہوم کو یہاں " داہنے سے لینے" سے اس لئے محاورۃ اور عرفا تعبیر کیا گیا ہے کہ پسندیدہ اور محبوب چیز داہنے ہاتھ ہی سے لی جاتی ہے۔
" پالتا " ہے سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس صدقے کے ثواب کو بڑھاتا جاتا ہے تاکہ وہ قیامت کے روز میزان عمل میں گراں ثابت ہو۔

یہ حدیث شیئر کریں