ذخیرہ اندوزی کی بجائے توکل علی اللہ کی تعلیم
راوی:
وعن أبي هريرة رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه و سلم دخل على بلال وعنده صبرة من تمر فقال : " ما هذا يا بلال ؟ " قال : شيء ادخرته لغد . فقال : " أما تخشى أن ترى له غدا بخارا في نار جهنم يوم القيامة أنفق بلال ولا تخش من ذي العرش إقلالا "
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس تشریف لائے تو دیکھا کہ ان کے نزدیک کھجوروں کا ڈھیر پڑا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ بلال! یہ کیا ہے ؟ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ وہ چیز ہے جسے میں نے کل (یعنی آئندہ پیش آنے والی اپنی ضرورت ) کے لئے جمع کیا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم اس بات سے نہیں ڈرتے کہ کل قیامت کے دن دوزخ کی آگ میں تم اس کا بخار دیکھو (پھر فرمایا) بلال اس ذخیرہ کو (خدا کی راہ) میں خرچ کر دو اور صاحب عرش سے فقر و افلاس کا خوف نہ کرو۔
تشریح
ارشاد گرامی اما تخشی ان تری لہ غدا الخ میں غد (کل) سے مراد قیامت کا دن ہے لہٰذا کہا جائے گا کہ اس جملے میں یوم القیامۃ کے الفاظ عند کی تاکید کے طور پر ارشاد فرمائے گئے ہیں بخار سے مراد اثر ہے مطلب یہ ہے کہ کیا تم چاہتے ہو کہ قیامت کے دن اس کے سبب دوزخ کی آگ کا اثر تمہیں پہنچے، گویا یہ اس بات سے کنایہ ہے کہ ذخیرہ اندوزی دوزخ سے قریب ہے اور اس کا حاصل یہ ہے کہ اگر تم اللہ پر توکل نہیں کرو گے اور فقر و افلاس کے خوف سے ذخیرہ اندوزی کرو گے تو اس کی وجہ سے دوزخ کے قریب ہو جاؤ گے۔
حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ ذخیرہ اندوزی نہ کرو۔ بلکہ جو جمع کیا ہے اسے اللہ کے نام پر خرچ کر ڈالو، فقر و افلاس کا خوف نہ کرو بلکہ اللہ پر اعتماد اور بھروسہ رکھ کیونکہ جس قادر مطلق نے عرش عظیم کو پیدا کیا ہے اور تمہاری تخلیق کی ہے وہی تمہیں روزی بھی پہنچائے گا۔
گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت بلال کو یہ حکم بطور تعلیم دیا کہ مقام کمال حاصل کرو جو توکل اور ذات حق پر کامل اعتماد ہے ورنہ تو جہاں تک مسئلے کا تعلق ہے علماء لکھتے ہیں کہ اپنی اور اپنے اہل و عیال کی ضروریات زندگی کے بقدر ذخیرہ کرنا جائز ہے۔