ماسوا اللہ کی طرف التفات مقام قرب سے باز رکھتا ہے
راوی:
وعن عقبة بن الحارث قال : صليت وراء النبي صلى الله عليه و سلم بالمدينة العصر فسلم ثم قام مسرعا فتخطى رقاب الناس إلى بعض حجر نسائه ففزع الناس من سرعته فخرج عليهم فرأى أنهم قد عجبوا من سرعته قال : " ذكرت شيئا من تبر عندنا فكرهت أن يحبسني فأمرت بقسمته " . رواه البخاري . وفي رواية له قال : " كنت خلفت في البيت تبرا من الصدقة فكرهت أن أبيته "
حضرت عقبہ بن حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن کا واقعہ ہے کہ میں نے مدینہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے عصر کی نماز پڑھی چنانچہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سلام پھیر چکے تو بڑی سرعت کے ساتھ کھڑے ہوئے اور لوگوں کی گردنیں پھلانگتیں ہوئے اپنی ازواج مطہرات کے بعض حجروں کی طرف چلے گئے۔ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم آپ کی اس سرعت سے گھبرا گئے پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حجرے سے باہر تشریف لائے اور صحابہ کو اپنی سرعت پر متعجب دیکھا تو فرمایا کہ اچانک مجھے یاد آیا کہ ہمارے پاس سونے کی ایک چیز موجود ہے اور میں نے اسے ناپسند کیا کہ وہ مجھے مقام قرب سے روکے لہٰذا فورا جا کر اہل بیت کو میں نے حکم دیا کہ سونے کی وہ چیز تقسیم کر دی جائے۔ (بخاری)
اور بخاری کی ہی ایک دوسری روایت میں الفاظ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں زکوۃ میں آیا ہوا سونے کا ایک ڈلا گھر میں چھوڑ آیا تھا جو تقسیم کرنے کے بعد بچ گیا تھا لہٰذا میں نے یہ پسند نہیں کیا کہ میں اسے ایک رات کے لئے بھی اپنے پاس رکھوں۔
تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ما سو اللہ کی طرف التفات کرنا ان بندگان اللہ کو بھی کہ جو مقربین بارگاہ الوہیت ہوتے ہیں مقام قرب سے باز رکھتا ہے یا پھر یہ کہا جائے گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی امت کے لئے بطور تعلیم و تنبیہ ہے کہ دنیا اور دنیا کی چیزوں کی رغبت اور خواہش نہیں ہونی چاہئے۔