خدا کی راہ میں خرچ کرنے کی فضیلت
راوی:
عن عائشة رضي الله عنها أن بعض أزواج النبي صلى الله عليه و سلم قلن للنبي صلى الله عليه و سلم أينا أسرع بك لحوقا ؟ قال : " أطولكن يدا فأخذوا قصبة يذرعونها فكانت سودة أطولهن يدا فعلمنا بعد أنما كانت طول يدها الصدقة وكانت أسرعنا لحوقا به زينب وكانت تحب الصدقة . رواه البخاري . وفي رواية مسلم قالت : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " أسرعكن لحوقا بين أطولكن يدا " . قالت : فكانت أطولنا يدا زينب ؟ لأنها كانت تعمل بيدها وتتصدق
ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات میں سے بعض نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا کہ ہم میں کون سی بیوی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جلد ملاقات کرے گی یعنی آپ کے وصال کے بعد ہم میں سب سے پہلے کس بیوی کا انتقال ہو گا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس کے ہاتھ سب سے لمبے ہوں گے۔ (حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشاد سن کر) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات نے بانس یا سرکنڈے کا ایک ٹکڑا لے کر اپنے ہاتھ ناپنے شروع کئے ان سب میں حضرت سودہ کے ہاتھ جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک زوجہ مطہرہ تھیں سب سے لمبے تھے مگر پھر بعد میں ہمیں معلوم ہوا کہ ہاتھ کی لمبائی سے مراد صدقہ تھا اور ہم میں سے جس نے سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یعنی سب سے پہلے جس کا انتقال ہوا وہ حضرت زینب تھیں اور وہ صدقہ و خیرات کرنے کو بہت پسند کرتی تھیں۔ (بخاری ) اور مسلم کی ایک روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ازواج مطہرات کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ تم میں میں سے مجھ سے جلد ملنے والی وہ ہو گی جس کے ہاتھ لمبے ہوں گے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ یہ سن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپس میں ہاتھوں کی لمبائی ناپتی تھیں کہ ان میں سے کون سی لمبے ہاتھوں والی ہے، چنانچہ ہم میں سب سے لمبے ہاتھ والی حجرت زینب تھیں کیونکہ وہ اپنے ہاتھ سے سب کام کرتی تھیں اور صدقہ و خیرات کیا کرتی تھیں۔
تشریح
فعلمنا بعد (مگر پھر بعد میں ہمیں معلوم ہواالخ) کا مطلب یہ ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا تو ہم نے پہلے تو ہاتھ کی لمبائی کو اس کے ظاہری معنی ہی پر محمول کیا کہ واقعۃ جس کے ہاتھ سب سے لمبے ہوں گے وہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جلد ملاقات کرے گی لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات میں سب سے پہلے جب حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا انتقال ہوا تو معلوم ہوا کہ ہاتھ کی لمبائی سے مراد صدقہ و خیرات کی کثرت تھی گویا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد کا مطلب یہ تھا کہ تم میں سب سے لمبے ہاتھ والی وہ ہے جو سب سے زیادہ صدقہ و خیرات کرتی ہے۔
حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بارے میں منقول ہے کہ وہ اپنے ہاتھ سے چمڑے کی دباغت کا کام انجام دیتی تھیں پھر اس کو فروخت کرتی اور قیمت ملتی اسے اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کے لئے اس کی راہ میں خرچ کرتی تھیں۔