مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ جنازوں کا بیان ۔ حدیث 37

تکلیف ومصیب مسلمان کے لئے گناہوں کا کفارہ

راوی:

وعن أبي موسى أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : " لا يصيب عبدا نكبة فما فوقها أو دونها إلا بذنب وما يعفو الله عنه أكثر وقرأ : ( وما أصابكم من مصيبة فبما كسبت أيديكم ويعفو عن كثير )
رواه الترمذي

حضرت ابوموسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا " بندہ کو جو معمولی ایذاء پہنچتی ہے یا کوئی تکلیف پہنچتی ہے خواہ وہ اس سے کم ہو یا زیادہ ہو، یہ اس کے گناہوں کا ثمرہ ہوتا ہے اور وہ گناہ جنہیں اللہ تعالیٰ (بغیر سزا دئیے) دنیا و آخرت میں بخش دیتا ہے ان گناہوں سے بہت زیادہ ہوتے ہیں جن پر وہ سزا دیتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی (وما اصابکم من مصیبۃ فبما کسبت ایدیکم ویعفوا عن کثیر) اور از قسم مصیبت جو چیز تمہیں پہنچتی ہے وہ تمہارے ہی ہاتھوں پیدا کی ہوئی ہے اور اللہ تعالیٰ بہت سے (گناہوں یا گناہ گاروں) کو معاف فرما دیتا ہے" ۔ (ترمذی)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ تمہیں جو بھی مصیبت و تکلیف اور بیمار وغیرہ پہنچتی ہے وہ سب تمہاری بداعمالیوں کا نتیجہ ہوتی ہے۔ گویا یہاں گنہ گاروں کو مخاطب کیا جا رہا ہے کہ اپنی بداعمالیوں اور غلط کاریوں سے باز آ جاؤ اور نیک راستہ پر چلنے ہی کو اپنی دینی و دنیوی راحت و سکون کا ذریعہ جانو، ہاں جب وہ لوگ کسی مصیب و تکلیف میں مبتلا ہوتے ہیں جو گناہ گار نہیں ہوتے تو اس سے ان کی آزمائش و امتحان مقصود ہوتا ہے جس کی وجہ سے ان کے درجات میں بلندی ہوتی ہے، اگرچہ اللہ کے نیک اور برگزیدہ بندے کسی معمولی سی تکلیف اور پریشانی میں بھی مبتلا ہوتے ہیں اور اپنے عجز و بیچارگی کے احساس کی وجہ سے وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ یہ ہماری شامت اعمال کی وجہ سے ہے۔ چنانچہ ایک بزرگ کے بارہ میں منقول ہے کہ ایک مرتبہ چوہے نے ان کے جوتے کے تسمہ کو کتر لیا تو وہ اتنا متاثر ہوئے کہ روتے جاتے تھے کہ آہ! نامعلوم میں کس گناہ میں مبتلا ہو گیا تھا جس کی سزا میں نے یہ پائی ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں