مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ خرچ کرنے کی فضیلت اور بخل کی کراہت کا بیان ۔ حدیث 361

ضرورت سے زائد مال کو خرچ کرنے کا حکم

راوی:

وعن أبي أمامة قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " يا ابن آدم إن تبذل الفضل خير لك وإن تمسكه شر لك ولا تلام على كفاف وابدأ بمن تعول " . رواه مسلم

حضرت ابوامامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ اے اولاد آدم! جو مال تمہاری حاجت و ضرورت سے زائد ہو اسے اللہ کی خوشنودی کے لئے خرچ کرنا تمہارے لئے دنیا و آخرت میں بہتر ہے اور اسے روکے رکھنا یعنی خرچ نہ کرنا اللہ کے نزدیک بھی اور بندوں کے نزدیک بھی تمہارے لئے برا ہے! بقدر کفایت مال پر کوئی ملامت نہیں ہے اور جو مال تمہاری حاجت سے زائد ہو اسے خرچ کرنے کے سلسلے میں اپنے اہل و عیال سے ابتداء کرو۔ (مسلم)

تشریح
ولا تلام علی کفاف(بقدر کفایت مال پر کوئی ملامت نہیں ہے) کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم اتنا مال اپنے پاس بچائے رکھو جو تمہاری زندگی کی بقاء کے لئے ضروری ہو بایں طور کہ اس کی وجہ سے تمہاری غذائی ضرورت پوری ہو اور تم کسی کے سامنے دست سوال دراز کرنے سے بچے رہو تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے اور ظاہر ہے کہ بقاء زندگی کے بقدر مال کا تعین اشخاص و احوال اور زمانہ کے مطابق ہوتا ہے یعنی بعض اشخاص کے بقاء زندگی کے بقدر مال کی مقدار کم ہوتی ہے اور بعضوں کے لئے زیادہ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی واقعی ضروریات زندگی کے لئے کم مال درکار ہوتا ہے اور کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے لئے زیادہ مقدار ضروری ہوتی ہے اسی طرح بعض دنوں میں بقاء زندگی کے لئے کم مال درکار ہوتا ہے اور بعض دنوں میں زیادہ مقدار میں ضروری ہوتا ہے نیز بعض حالات میں تھوڑا مال کفایت کر جاتا ہے اور بعض حالات میں زیادہ مال کی ضرورت ہوتی ہے حاصل یہ کہ اگر کوئی شخص اپنی حیثیت کے مطابق کسی واقعی ضرورت و حاجت کے بقدر مال و زر بچائے رکھتا ہے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
حدیث کے آخری الفاظ و ابدا بمن تعول کا مفہوم یہ ہے کہ سخاوت خرچ کے معاملے میں اپنے اہل و عیال اور ان لوگوں کو مقدم رکھنا چاہئے جن کا نفقہ اپنے اوپر واجب ہو یعنی ان لوگوں کو دو ، جب ان سے بچ رہے تو دوسرے لوگوں کو دینا چاہئے اور اس انداز سے خرچ کرنا کوئی مستحسن بات نہیں ہے کہ اپنے اہل و عیال تو ضرورت مند و محتاج رہیں اور دوسروں کو دیا جائے۔
حدیث کے ظاہری الفاظ سے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ ارشاد بھی حدیث قدسی (اللہ تعالیٰ کا ارشاد) ہے اگرچہ حدیث میں صراحتا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔ لیکن یہ احتمال بھی ہے کہ شاید آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ہی ارشاد کے لئے یہ اسلوب اختیار فرمایا ہو۔ و اللہ اعلم۔

یہ حدیث شیئر کریں