طمع افلاس اور محتاجگی ہے
راوی:
وعن عمر رضي الله عنه قال : تعلمن أيها الناس أن الطمع فقر وأن الإياس غنى وأن المرء إذا يئس عن شيء استغنى عنه . رواه رزين
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ لوگو! جان لو کہ طمع محتاجگی ہے اور آدمیون سے نا امید ہونا تونگری و بے پروائی ہے، انسان جب کسی چیز سے مایوس ہو جاتا ہے تو اس سے بے پرواہ ہو جاتا ہے۔ (رزین)
تشریح
طمع محتاجگی ہے کا مطلب یہ ہے کہ طمع محتاجگی کی ایک صورت ہے یا یہ مطلب ہے کہ طمع محتاجگی کا ذریعہ ہے یعنی طمع کی وجہ سے انسان محتاج بنتا ہے بایں طور کہ اپنی طمع پوری کرنے کے لئے دوسرے لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلاتا ہے ۔ نا امید ہونا تونگری و بے پروائی ہے۔ کا مطلب یہ ہے کہ انسان سے نا امیدی مستغنی اور بے پرواہ بنا دیتی ہے حضرت ابوالحسن شاذلی رحمہ اللہ کے بارے میں منقول ہے کہ ان سے کسی نے علم کیمیا جو صرف دو لفظوں میں منحصر ہو طلب کیا تو انہوں نے اس سے فرمایا کہ مخلوق اللہ سے صرف نظر کرو یعنی کسی انسان سے امیدیں قائم نہ کرو اور اللہ سے اس چیز کے بارے میں اپنی طمع منقطع کر لو جو تمہاری قسمت میں لکھی ہوئی چیزوں کے علاوہ ہے یعنی اللہ نے جو چیزیں تمہارے مقدر میں لکھ دی ہیں اس کے علاوہ دوسری چیزوں کی امید نہ رکھو۔
طمع کے معنی ہیں اس چیز پر نظر رکھنا یعنی اسے حاصل کرنے کی خواہش کرنا کہ جس کے حاصل ہونے میں شک ہو یعنی کسی چیز کے بارے میں یہ خیال ہو کہ اس کا مالک دے گا یا نہیں ہاں اگر کسی ایسی چیز کی کسی ایسے شخص سے حصول کی خواہش ہو جس پر اس کا ہو اس شخص سے کمال تعلق اور محبت و مروت کی بنا پر یقین ہو کہ وہ چیز مل جائے گی تو اسے طمع نہیں کہیں گے۔