مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ جن لوگوں کو سوال کرنا جائز کرنا جائز ہے اور جن کو جائز نہیں ہے ان کا بیان ۔ حدیث 342

جو چیز بغیر طمع وحرص کے ملے اسے قبول کرنا چاہئے

راوی:

وعن عمر بن الخطاب قال : كان النبي صلى الله عليه و سلم يعطيني العطاء فأقول : أعطه أفقر إليه مني . فقال : " خذه فتموله وتصدق به فما جاءك من هذا المال وأنت غير مشرف ولا سائل فخذه . ومالا فلا تتبعه نفسك "

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے زکوۃ وصول کرنے کی اجرت عطا فرماتے تو میں عرض کرتا کہ یہ اس شخص کو دے دیجئے جو مجھ سے زیادہ محتاج ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے جواب میں فرماتے کہ اگر تمہیں حاجت و ضرورت ہو تو اسے لے کر اپنے مال میں شامل کر لو اور اگر حاجت و ضرورت سے زیادہ ہو تو خود اللہ کی راہ میں خیرات کر دو نیز یہ بھی فرماتے کہ جو چیز تمہیں بغیر طمع و حرص کے اور بغیر مانگے حاصل ہو اسے قبول کر لو اور جو چیز اس طرح یعنی بغیر طمع و حرص اور بغیر سوال کے ہاتھ نہ لگے تو اس کے پیچھے مت پڑو۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ کہ جو چیز بغیر طمع و حرص اور بغیر مانگے حاصل نہ ہو اس کو حاصل کرنے کے لئے طمع نہ کرو اور نہ اس کے لئے منتظر رہو جیسا کہ کہہ دیا جاتا ہے کہ لارد ولا کد۔
ایک دوسری حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ جو چیز بغیر طمع و حرص کے حاصل ہو اور وہ اسے واپس کر دے تو گویا اس نے اس چیز کو اللہ کو واپس کر دیا یعنی اللہ کی ایک نعمت کو ٹھکرا دیا۔

یہ حدیث شیئر کریں