اوپر کا ہاتھ نیچے کے ہاتھ سے بہتر ہے
راوی:
وعن حكيم بن حزام قال : سألت رسول الله صلى الله عليه و سلم فأعطاني ثم سألته فأعطاني ثم قال لي : " يا حكيم إن هذا المال خضر حلو فمن أخذه بسخاوة نفس بورك له فيه ومن أخذه بإشراف نفس لم يبارك له فيه . وكان كالذي يأكل ولا يشبع واليد العليا خير من اليد السفلى " . قال حكيم : فقلت : يا رسول الله والذي بعثك بالحق لا أرزأ أحدا بعدك شيئا حتى أفارق الدنيا "
حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کچھ مانگا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عنایت فرما دیا میں نے پھر دوبارہ مانگا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس وقت بھی عطا کیا اور پھر مجھ سے فرمایا کہ حکیم! یہ مال سبز و شیریں ہے (یعنی نظر میں خوشنما اور دل کو لذت دینے والا ہے) لہٰذا جو شخص اس مال کو بے پروائی سے یعنی بغیر ہاتھ پھیلائے اور بغیر طمع و حرص کے حاصل کرتا ہے تو اس میں برکت عطا فرمائی جاتی ہے اور جو شخص اسے نفس کے طمع و حرص کے ساتھ حاصل کرتا ہے تو اس میں برکت نہیں ہوتی اور اس کی حالت اس شخص کی مانند ہوتی ہے جو کھانا تو کھاتا ہے مگر اس کا پیٹ نہیں بھرتا گویا بے برکتی اور کثرت حرص کی وجہ سے یہ حال ہوتا ہے اور یاد رکھو کہ اوپر کا ہاتھ یعنی دوسروں کو دینے والا نیچے کے ہاتھ یعنی دوسروں سے مانگنے والے سے بہتر ہوتا ہے حکیم کہتے ہیں کہ یہ سن کر میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں اب کسی کے مال میں سے کچھ کم نہیں کروں گا یعنی آج کے بعد آئندہ کبھی بھی کسی سے سوال نہیں کروں گا یہاں تک کہ میں اس دنیا سے جدا ہوں یعنی موت کی آغوش میں پہنچ جاؤں۔