نصاب کی زکوۃ کی تفصیل
راوی:
وعن أنس بن مالك : أن أبا بكر رضي الله عنه كتب له هذا الكتاب لما وجهه إلى البحرين : بسم الله الرحمن الرحيم هذه فريضة الصدقة التي فرض رسول الله صلى الله عليه و سلم على المسلمين والتي أمر الله عز و جل بها رسوله فمن سألها من المسلمين على وجهها فليعطها ومن سئل فوقها فلا يعط : في أربع وعشرين من الإبل فما دونها خمس شاة . فإذا بلغت خمسا وعشرين إلى خمس وثلاثين ففيها بنت مخاض انثى فإذا بلغت ستا وثلاثين ففيها بنت لبون أنثى . فإذا بلغت ستة وأربعين إلى ستين ففيها حقة طروقة الجمل فإذا بلغت واحدة وستين ففيها جذعة . فإذا بلغت ستا وسبعين ففيها بنتا لبون . فإذا بلغت إحدى وتسعين إلى عشرين ومائة ففيها حقتان طروقتا الجمل . فإذا زادت على عشرين ومائة ففي كل أربعين بنت لبون وفي كل خمسين حقة . ومن لم يكن معه إلا أربع من الإبل فليس فيها صدقة إلا أن يشاء ربها . فإذا بلغت خمسا ففيها شاة ومن بلغت عنده من الإبل صدقة الجذعة وليست عنده جذعة وعنده حقة فإنها تقبل منه الحقة ويجعل معها شاتين أن أستيسرتا له أو عشرين درهما . ومن بلغت عنده صدقة الحقة وليست عنده الحقة وعنده الجذعة فإنها تقبل منه الجذعة ويعطيه المصدق عشرين درهما أو شاتين . ومن بلغت عنده صدقة الحقة وليست إلا عنده بنت لبون فإنها تقبل منه بنت لبون ويعطي معها شاتين أو عشرين درهما . ومن بلغت صدقته بنت لبون وعنده حقة فإنها تقبل منه الحقة ويعطيه المصدق عشرين درهما أو شاتين . ومن بلغت صدقته بنت لبون وليست عنده وعنده بنت مخاض فإنها تقبل منه بنت مخاض ويعطي معها عشرين درهما أو شاتين . ومن بلغت صدقته بنت مخاض وليست عنده وعنده بنت لبون فإنها تقبل منه ويعطيه المصدق عشرين درهما أو شاتين . فإن لم تكن عنده بنت مخاض على وجهها وعنده ابن لبون فإنه يقبل منه وليس معه شيء . وفي صدقة الغنم في سائمتها إذا كانت أربعين ففيها شاة إلى عشرين ومائة شاة فإن زادت على عشرين ومائة إلى مائتين ففيها شاتان . فإن زادت على مائتين إلى ثلاثمائة ففيها ثلاث شياه . فإذا زادت على ثلاثمائة ففي كل مائة شاة . فإذا كانت سائمة الرجل ناقصة من أربعين شاة واحدة فليس فيها صدقة إلا أن يشاء ربها . ولا تخرج في الصدقة هرمة ولا ذات عور ولا تيس إلا ما شاء المصدق . ولا يجمع بين متفرق ولا يفرق بين مجتمع خشية الصدقة وما كان من خليطين فإنهما يتراجعان بينهما بالسوية . وفي الرقة ربع العشر فإن لم تكن إلا تسعين ومائة فليس فيها شيء إلا أن يشاء ربها . رواه البخاري
حضرت انس کے بارے میں مروی ہے کہ جب امیرالمومنین حضرت ابوبکر صدیق نے انہیں بحرین جو بصرہ کے قریب ایک جگہ کا نام ہے بھیجا تو انہیں یہ ہدایت نامہ تحریر فرمایا۔ اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں جو رحمن ورحیم ہے یہ اس صدقہ فرض (زکوۃ) کے بارے میں ہدایتنامہ جسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے مسلمانوں پر فرض کیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کے نافذ کرنے کے بارے میں اپنے رسول کو حکم فرمایا۔ لہٰذا جس شخص سے قاعدہ کے مطابق زکوۃ کا مطالبہ کیا جائے تو وہ ادائیگی کرے اور جس شخص سے شرعی مقدار سے زیادہ مطالبہ کی جائے وہ زائد مطالبہ کی ادئیگی نہ کرے زکوۃ کا نصاب یہ ہے کہ چوبیس اور چوبیس سے کم اونٹوں کی زکوۃ میں بکری ہے اس طرح کہ ہر پانچ اونٹ پر ایک بکری ہے یعنی پانچ اونٹوں سے کم میں زکوۃ نہیں ہے اور پانچ سے نو تک ایک بکری دس سے چودہ تک دو بکری پندرہ سے انیس تک تین بکری اور بیس سے چوبیس تک چار بکری واجب ہوگی۔ پچیس سے پینتیس تک میں ایک ایسی اونٹنی جو ایک سال کی ہو چھتیس سے پینتالیس تک ایک اونٹنی جو دو سال کی ہول۔ چھیالیس سے ساٹھ تک میں ایک ایسی اونٹنی جو چار سال کی ہو اور اونٹ سے جفتی کے قابل ہو، اکسٹھ سے پچھتر تک میں ایک اونٹنی جو اپنی عمر کے چار سال ختم کر کے پانچویں سال میں داخل ہوگئی اور چھہتر سے نوے تک میں دو ایسی اونٹنیاں جو دو سال کی ہوں اکیانوے سے ایک سو بیس تک میں دو ایسی اونٹنیاں جو تین تین سال کی ہوں اور اونٹ سے جفتی کے قابل ہوں اور جب تعداد ایک سوبیس سے زائد ہو تو اس کا طریقہ یہ ہوگا کہ ان زائد اونٹنیوں میں ہر چالیس کی زیادت پر دو برس کی اونٹنی اور ہر پچاس کی زیادت پر پورے تین برس کی اونٹنی واجب ہوگی اور جس کے پاس صرف چار ہی اونٹ ہو تو اس پر زکوۃ واجب نہیں ہاں اگر وہ شخص چاہے تو صدقہ نفل کے طور پر کچھ دے دے جب پانچ اونٹ ہوں گے تو اس پر زکوۃ کے طور پر ایک بکری واجب ہوجائے گی اور جس شخص کے پاس اتنے اونٹ ہوں کہ ان میں زکوۃ کے طور پر ایسی اونٹنی واجب ہوتی ہو جو چار برس پورے کر کے پانچویں سال میں لگ گئی ہو یعنی اکسٹھ سے پچھتر تک کی تعداد میں اور اس کے پاس چار برس کی اونٹنی نہ ہو کہ جسے وہ زکوۃ کے طور پر دے سکے بلکہ تین برس کی اونٹنی موجود ہوں تو اس سے تین ہی برس کی اونٹنی زکوۃ میں قبول کی جاسکتی ہے مگر زکوۃ دینے ولاا اس تین برس کی اونٹنی کے ساتھ ساتھ اگر اس کے پاس موجود ہوں تو دو بکریاں ورنہ بصورت دیگر تیس درہم ادا کرے اور کسی شخص کے پاس اونٹوں کی ایسی تعداد ہو جس میں تین برس کی اونٹنی واجب ہوتی ہو یعنی چھیالیس سے ساٹھ تک کی تعداد اور اس کے پاس تین برس کی کوئی اونٹنی زکوۃ میں دینے کے لئے نہ ہو بلکہ چار برس کی اونٹنی ہو تو اس سے چار برس والی اونٹنی ہی لے لی جائے البتہ زکوۃ دینے والا دوبکریاں یا بیس درہم بھی اس کے ساتھ دیدے اور اگر کسی شخص کے پاس اتنی تعداد میں اونٹ ہوں کہ جن میں دو برس کی اونٹنی واجب ہوتی ہو جیسے چھتیس سے پینتالیس تک کی تعداد اور اس کے پاس دو برس کی اونٹنی کے بجائے تین برس کی اونٹنی ہو تو اس سے تین برس کی اونٹنی ہی لے لی جائے مگر زکوۃ وصول کرنے والا اسے بیس درہم یا دوبکریاں واپس کردے اور اگر کسی شخص کے پاس اتنی تعداد میں اونٹ ہوں جن میں دو برس کی اونٹنی واجب ہوتی ہو اور وہ اس کے پاس نہ ہو بلکہ ایک برس کی اونٹنی ہو تو اس سے ایک برس کی اونٹنی ہی لے لی جائے اور وہ زکوۃ دینے والا اس کے ساتھ بیس درہم یا دو بکریاں بھی دے اور اگر کسی شخص کے پاس اتنی تعداد میں اونٹ ہوں کہ جن میں ایک برس کی اونٹنی واجب ہوتی ہو جیسے بیس سے پچیس تک کی تعداد ، اور ایک برس کی اونٹنی اس کے پاس نہ ہو بلکہ دو برس کی اونٹنی اس کے پاس ہو تو اس سے وہی دو برس والی اونٹنی لے لی جائے مگر زکوۃ وصول کرنے والا اس کو دو بکریاں یا بیس درہم واپس کردے اور اگر اس کے پاس دینے کے قابل ایک برس کی اونٹنی نہ ہو اور نہ دو برس کی اونٹنی ہو بلکہ دو برس کا اونٹ ہو تو وہ اونٹ ہی لے لیا جائے امگر اس صورت میں کوئی اور چیز واجب نہیں نہ تو زکوۃ لینے والا کچھ واپس کرے گا اور نہ زکوۃ دینے والا کچھ اجر دے گا اور چرنے والی بکریوں کی زکوۃ کا نصاب یہ ہے کہ جب بکریوں کی تعداد چالیس سے ایک سوبیس تک ہو تو ایک واجب ہوتی ہے اور ایک سو بیس سے زائد ہوں تو دو سو تک کی تعداد پر دو بکریاں واجب ہوتی ہیں اور جب دو سو سے زائد ہوں تو تین سو تک تین بکریاں واجب ہوتی ہیں اور جب تین سو سے زائد ہوجائیں تو پھر یہ حساب ہوگا کہ ہر سو بکریوں میں ایک بکری واجب ہگی جس شخص کے پاس چرنے والی بکریاں چالیس سے ایک بھی کم ہوں گی تو ان میں زکوۃ واجب نہیں ہوگی ہاں اگر بکریوں کا مل چاہے تو صدقہ نفل کے طور پر کچھ دے سکتا ہے۔ اس بات کا خیال رکھا جائے کہ زکوۃ میں خواہ اونٹ ہو یا گائے اور بکری بڑھیا اور عیب دار نہ جائے اور نہ بوک (بکرا) دیا جائے ہاں اگر زکوۃ وصول کرنے والا کسی مصلحت کے تحت بوک لینا چاہے تو درست ہے اور متفرق جانوروں کو یکجا نہ کیا جائے اور نہ زکوۃ کے خوف سے جانوروں کو علیحدہ علیحدہ کیا جائے نیز جس نصاب میں دو آدمی شریک ہوں تو انہیں چاہئے کہ وہ دونوں برابر تقسیم کر لیں اور چاندی میں چالیسواں حصہ زکوۃ کے طور پر دینا فرض ہے اگر کسی کے پاس صرف ایک سو نوے درہم ہوں (یعنی نصاب شرعی کا مالک نہ ہو) تو اس پر کچھ فرض نہیں ہے ہاں اگر وہ صدقہ نفل کے طور پر کچھ دینا چاہے تو دے سکتا ہے۔ (بخاری)
تشریح : گزشتہ صفحات میں ایک حدیث گزر چکی ہے جس میں یہ فرمایا گیا ہے جس میں یہ فرمایا گیا ہے کہ تم زکوۃ وصول کرنے والوں کو خوش کرو اگرچہ وہ تمہارے ساتھ ظلم ہی کا معاملہ کیوں نہ کریں۔ اسی طرح ایک حدیث اور گزر چکی ہے جس میں بیان کیا گیا تھا کہ کچھ لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا کہ زکوۃ وصول کرنے والے زیادتی کرتے ہیں یعنی مقدار واجب سے زیادہ مال لیتے ہیں تو کیا ہم ان کی طرف سے زیادہ طلب کے جانے والے مال کو چھپادیں یعنی وہ انہیں نہ دیں تو اس کے جواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں ایسا کرنے سے منع کردیا تھا۔
لیکن یہاں فرمایا گیا ہے کہ جس شخص سے زیادہ مطالبہ کی اجائے وہ ادائیگی نہ کرے۔ لہٰذا بظاہر ان روایتوں میں تعارض اور اختلاف معلوم ہوتا ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس وقت زکوۃ وصول کرنے والے صحابہ تھے ظاہر ہے نہ تو وہ ظالم تھے اور شرعی مقدار سے زیادہ کا مطالبہ کرتے تھے اور نہ صحابہ کے بارے میں ایسا تصور کیا جاسکتا تھا لوگ اپنے گمان اور خیال کے مطابق یہ سمجھتے تھے کہ ہمارے ساتھ ظلم وزیادت کا معاملہ ہوتا ہے لہٰذا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس حقیقت کے پیش نظر یہی حکم دیا کہ انہیں بہر صورت خوش کیا جائے اور وہ جو کچھ مانگیں اسے دینے میں تامل نہ کیا جائے اور یہاں حضرت ابوبکر کے ارشاد میں زکوۃ وصول کرنے والوں سے صحابہ مراد نہیں ہیں بلکہ دوسرے لوگ مراد ہیں اور ظاہر ہے کہ صحابہ کے علاوہ دوسرے لوگوں سے ایسی باتوں کا صدور ممکن تھا اس لئے حضرت ابوبکر نے یہ تحریر فرمایا کہ زائد مطالبہ کی ادائیگی نہ کی جائے۔ اس وضاحت سے احادیث میں جو بظاہر تعارض نظر آرہا تھا وہ ختم ہو گیا۔
فاذا زادت علی عشرین وماۃ الخ (اور جب تعداد ایک سوبیس سے زائد ہوالخ) قاضی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث عدد مذکور سے متجاوز ہونے کی صورت میں استقرار اور حساب پر دلالت کرتی ہے یعنی جب اونٹ ایک سوبیس سے زائد ہوں تو ان کی زکوۃ کا حساب از سر نو شروع نہ کیا جائے بلکہ ایسی صورت میں ہر چالیس کی زیادتی پر دو برس کی اونٹنی اور ہر پچاس کی زیادتی پر تین برس کی اونٹنی کے حساب سے زکوۃ ادا کی جانی چاہئے، چنانچہ اکثر ائمہ کا یہی مسلک ہے مگر حضرت امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ از سر نو حساب شرع کیا جائے گا چنانچہ جب اونٹوں کی تعداد ایک سوبیس سے متجاوز ہوجائے تو اس وقت دو حقے یعنی تین برس کی دو اونٹنیاں اور ایک بکری واجب ہوگی اور اسی طرح چوبیس کی تعداد تک ہر پانچ پر ایک بکری واجب ہوتی چلی جائے گی پھر پچیس اور پچیس کے بعد بنت مخاض ایک سال کی اونٹنی واجب ہوجائے گی اسی طرح آخر تک پہلی ترتیب کے مطابق حساب کیا جائے گا امام نخعی اور امام ثوری کا یہی قول ہے ان حضرات کی دلیل یہ ارشاد گرامی ہے کہ جب اونٹوں کی تعداد ایک سو سے زائد ہوجائے تو اس کا حساب از سر نو شروع کیا جائے، حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے بھی اس طرح منقول ہے۔
اونٹوں کی زکوۃ کے بارے میں اتنی بات اور جان لیجئے کہ ان کی زکوۃ کے طور پر مادہ یعنی اونٹنی یا اس کی قیمت واجب ہوتی ہے جب کہ گائے اور بکری کی زکوۃمیں نر اور مادہ کی کوئی تخصیص نہیں ہے بلکہ ان کی زکوۃ کے طور پر نر یا اس کی قیمت اور مادہ یا اس کی قیمت دونوں ہی دئیے جاسکتے ہیں۔
مالم یکن عندہ بنت مخاض علی وجہہا (اور اگر اس کے پاس دینے کے قابل ایک برس کی اونٹنی نہ ہو) ابن املک نے اس کی وضاحت کے سلسلے میں فرمایا ہے کہ اس کے تین معنی ہوسکت ہیں۔ (١) اس کے پاس سرے سے ایک برس کی اونٹنی موجود ہی نہ (٢) ایک برس کی اونٹنی موجود تو ہو مگر تندرست نہ ہو بلکہ بیمار ہو اس صورت میں بھی گویا وہ نہ ہونے ہی کے درجہ میں ہوگی۔ (٣) ایک برس کی اونٹنی تو موجود ہو مگر اوسط درجہ کی نہ ہو بلکہ نہایت قیمتی اور اعلیٰ درجے کی ہو ملحوظ رہے کہ زکوۃ میں اوسط درجہ کا مال دینے کا حکم ہے۔
بہر کیف ان میں سے کوئی صورت ہو اس کا حکم یہ بیان کیا گیا ہے کہ ایسی صورت میں ابن لبون یعنی دو برس کا اونٹ زکوۃ کے طور پر دیا جائے گا پھر اس کی وضاحت بھی فرمادی کہ ابن لبون کے ساتھ مزید کچھ لینا دینا واجب نہیں ہے جیسا کہ اونٹنیوں کے بارے میں حکم دیا گیا ہے کہ اگر کسی شخص پر زکوۃ کے طور پر دینے کے لئے دو برس کی اونٹنی واجب ہو اور اس کے پاس دو برس کی اونٹنی موجود نہ ہو بلکہ تین برس کی اونٹنی ہو تو زکوۃ وصول کرنے والا اس سے وہی تین برس کی اونٹنی لے گا مگر وہ زکوۃ دینے والے کو دو بکریاں بیس درہم واپس کرے گا تاکہ زکوۃ دینے والے کو دو برس کی اونٹنی کی بجائے تین برس کی اونٹنی دینے کی صورت میں نقصان گھاٹا نہ ہو جیسے اس کے برعکس صورت بھی بیان کی گئی ہے کہ اگر زکوۃ دینے والا تین برس کی اونٹنی کی بجائے جو اس پر واجب ہے مگر موجود نہیں ہے دوبرس کی اونٹنی دے تو اس کے ساتھ دو بکریاں یا بیس درہم مزید دے تاکہ زکوۃ کے مال میں نقصان نہ رہ جائے بہرحال اس سے معلوم ہوا کہ فضیلت تانیث عمر کی زیادتی کا بدل ہوجاتی ہے۔
اگرچہ" چرنے والی" کی قید صرف بکری کے نصاب میں زکوۃ میں لگائی گئی ہے لیکن اس کا تعلق ہر جانور سے ہے یعنی خواہ بکری ہو یا اونٹ اور یا گائے ان میں زکوۃ اسی وقت واجب ہو گی جب کہ وہ سال کے اکثر حصے یعنی نصف سال سے زیادہ جنگ میں چریں اگر ان میں سے کوئی بھی جانور ایسا ہو جسے سال کے اکثر حصے میں گھر سے چارہ کھلایا جاتا ہو تو اس میں زکوۃ واجب ہو گی۔
بکریوں کا نصاب چالیس بیان کیا گیا ہے یعنی اگر چالیس سے کم بکریاں ہوں گی تو ان میں زکوۃ واجب نہیں ہو گی جب چالیس بکریاں ہوں گی تو ایک بکری زکوۃ کے طور پر واجب ہو جائے گی اور اگر چالیس سے بھی زائد ہوں تو ایک سو بیس تک ایک ہی بکری واجب رہے گی اسی طرح تین سو تک کی تعداد کے نصاب زکوۃ کو بیان کرنے کے بعد فرمایا گیا ہے کہ جب تعداد تین سو سے تجاوز ہو جائے تو پھر یہ حساب ہو گا کہ ہر سو بکری پر ایک بکری واجب ہو گی یعنی تین سو تک تو تین بکریاں ہوں گی تین سو کے بعد چار سو بکریاں اس وقت واجب ہوں گی جب کہ تعداد پورے چار سال ہو جائے چنانچہ اکثر ائمہ و علماء کا یہی مسلک ہے لیکن حسن بن صالح کا قول اس بارے میں یہ ہے کہ تین کے بعد اگر ایک بکری بھی زائد ہو گی تو چار بکریاں واجب ہو جائیں گی۔
ولا ذات عوار (اور عیب دار نہ دی جائے) زکوۃ میں عیب دار مال نہ لینے کا حکم اس صورت میں ہے جب کہ پورا مال یا کچھ مال ایسا ہو جس میں کوئی عیب و خرابی نہ ہو اگر پورا ہی مال عیب دار ہو تو پھر اس میں سے اوسط درجے کا دیکھ کر دیا جائے گا۔
زکوۃ میں بوک(بکرا) لینے سے اس لئے منع کیا گیا ہے کہ بکریوں کے ساتھ بوک افزائیش نسل کے لئے رکھا جاتا ہے اگر بوک لے لیا جائے گا تو بکریوں کے مالک کو نقصان ہو گا یا وہ اس کی وجہ سے پریشانی میں مبتلا ہو جائے گا یا پھر بوک لینے سے اس لئے منع فرمایا گیا ہے کہ اس کا گوشت بدمزہ اور بدبو دار ہوتا ہے۔
ولا یجمع بین متفرق الخ (اور متفرق جانوروں کو یکجا نہ کیا جائے الخ) اس جملے کا مطلب سمجھنے سے پہلے مسئلہ کی حقیقت جان لیجئے تاکہ مفہوم پوری طرح ذہن نشین ہو جائے مسئلہ یہ ہے کہ آیا زکوۃ گلہ یعنی مجموعہ پر ہے یا اشخاص یعنی مال کے مالک کا اعتبار ہوتا ہے؟
حضرت امام شافعی تو فرماتے ہیں کہ زکوۃ گلہ کے اعتبار سے دینی ہوتی ہے ان کے ہاں مالک کا اعتبار نہیں ہوتا جب کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے ہاں گلہ کا اعتبار نہیں ہوتا مالک کا اعتبار ہوتا ہے۔ اس مسئلہ کو مثال کے طور پر یوں سمجھئے کہ ایک شخص کے پاس اسی بکریاں ہیں مگر وہ بکریاں ایک جگہ یعنی ایک گلہ ریوڑ میں نہیں ہیں بلکہ الگ الگ دو گلوں میں ہیں تو چونکہ امام شافعی کے نزدیک زکوۃ گلہ پر واجب ہوتی ہے اس لئے ان کے مسلک کے مطابق ان دونوں گلوں میں سے دو بکریاں وصول کی جائیں گی لیکن حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے مسلک کے مطابق دونوں گلوں سے ایک ہی بکری وصول کی جائے گی کیونکہ اگرچہ وہ اسی بکریاں دو گلوں میں تقسیم ہیں مگر ملکیت میں چونکہ ایک شخص کی ہیں اس لئے اس حساب کے مطابق کہ چالیس سے ایک سو بیس تک کی تعداد میں ایک ہی بکری واجب ہوتی ہے اس شخص سے بھی ایک ہی بکری وصول کی جائے گی۔
دوسری مثال یہ ہے کہ دو اشخاص کی اسی بکریاں ہیں جو ایک ہی گلہ میں ہیں تو امام شافعی کے مسلک کے مطابق اس گلہ میں سے ایک ہی بکری لی جائے گی اور امام اعظم ابوحنیفہ کے مسلک کے مطابق اس گلہ میں سے دو بکریاں لی جائیں گی کیونکہ وہ اسی بکریاں اگرچہ ایک ہی گلہ میں ہیں لیکن مالک اس کے دو الگ الگ اشخاص ہیں اور وہ دونوں اتنی اتنی بکریوں (یعنی چالیس چالیس) کے مالک ہیں کہ ان کی الگ الگ تعداد پر ایک بکری واجب ہوتی ہے۔
اس مسئلہ کو ذہن میں رکھ کر اب سمجھئے کہ حدیث کے اس جملے ولا یجمع بین متفرق الخ کا مطلب امام شافعی کے ہاں تو یہ ہے کہ اس ممانعت کا تعلق مالک سے ہے کہ اگر مثال کے طور پر چالیس بکریاں اس کی ہوں اور چالیس بکریاں کسی دوسرے کی ہوں اور یہ دونوں تعداد الگ الگ ہوں تو ان بکریوں کو جو الگ الگ اور متفرق ہیں زکوۃ کم کرنے کے لئے یکجا نہ کیا جائے یعنی مالک یہ سوچ کر کہ اگر یہ بکریاں الگ الگ دو گلوں میں ہوں گی تو ان میں سے دو بکریاں دینی ہوں گی اور اگر ان دونوں گلوں کو ملا کر ایک گلہ کر دیا جائے تو پھر ایک ہی بکری دینی ہو گی ان کو یکجا نہ کرے۔
اسی طرح ولا یفرق بین مجتمع اور نہ جانوروں کو علیحدہ علیحدہ کیا جائے میں اس ممانعت کا تعلق بھی مالک سے ہے کہ مثلا اگر اس کے پاس بیس بکریاں ہوں جو کسی دوسرے شخص کی بکریوں کے گلے میں ملی ہوئی ہوں تو مالک اپنی ان بکریوں کو اس گلے سے الگ نہ کرے یہ سوچ کر کہ اگر یہ بکریاں اس گلے میں رہیں گی تو زکوۃ دینی ہو گی اور اگر ان بکریوں کو اس گلے سے الگ کر دیا جائے تو زکوۃ سے بچ جاؤں گا۔
حضرت امام ابوحنیفہ کے نزدیک اس ممانعت کا تعلق ساعی یعنی زکوۃ وصول کرنے والے سے ہے کہ وہ زکوۃ لینے کے لئے متفق بکریوں کو یکجا نہ کرے مثلا دو الگ الگ اشخاص کے پاس اتنی اتنی بکریاں ہوں کہ جو علیحدہ علیحدہ تو حد نصاب کو نہ پہنچتی ہوں اور ان پر زکوۃ واجب نہ ہوتی ہو جیسے دونوں کے پاس بیس بیس بکریاں ہوں مگر جب دونوں کی بکریاں یکجا ہو جائیں تو ان پر زکوۃ واجب ہو جائے لہٰذا زکوۃ وصول کرنے والے کے لئے یہ درست نہیں ہے کہ وہ زکوۃ لینے کی وجہ سے ان بکریوں کو یکجا کر دے اسی طرح دوسری ممانعت کا تعلق بھی زکوۃ وصول کرنے والے ہی سے ہے کہ زکوۃ لینے کے لئے علیحدہ علیحدہ جانوروں کو یکجا نہ کرے مثلاً اگر کسی شخص کے پاس اسی بکریاں اس طرح ہوں کہ چالیس تو ایک جگہ ہیں اور چالیس دوسری جگہ ہیں تو زکوۃ وصول کرنے والا ان دونوں جگہوں کی بکریوں کو دو الگ الگ نصاب قرار دے کر اس شخص سے دو بکریاں وصول نہ کرے بلکہ دونوں جگہوں کی بکریوں کو ایک ہی نصاب قرار دے اور قاعدہ کے مطابق ایک ہی بکری وصول کرے کیونکہ بکریاں اگرچہ الگ الگ ہیں لیکن ملکیت میں ایک ہی شخص کے ہیں لہٰذا دونوں جگہ کی مجموعہ بکریوں پر کہ جن کی تعداد اسی ہے ایک ہی بکری واجب ہو گی۔
وماکان من خلیطین (جس نصاب میں دو آدمی شریک ہوں) اس جملے کی وضاحت بھی ایک مسئلہ سمجھ لینے پر موقوف ہے مسئلہ یہ ہے کہ مثلاً دو سو بکریاں ہیں جس میں دو آدمی شریک ہیں اس حساب سے کہ ایک آدمی کی تو ان میں سے چالیس بکریاں ہیں اور دوسرا آدمی ایک سو ساٹھ بکریوں کا مالک ہے اب سوال یہ ہے کہ ان بکریوں پر زکوۃ کے طور پر تو بکریاں واجب ہوں مگر وہ دو بکریاں ان دونوں سے وصول کس حساب سے ہوں گی، ظاہر ہے کہ یہ تو نہیں ہو سکتا کہ پہلے شخص پر تو اس کے حصے کے پیش نظر ایک بکری کا دو خمس واجب ہو اور باقی دوسرے شخص پر واجب ہو بلکہ یہ ہو گا کہ زکوۃ وصول کرنے والا تو قاعدہ کے مطابق دونوں شخصوں سے ایک ایک بکری وصول کرتے گا مگر اس صورت میں پہلے شخص کو نقصان ہو گا کیونکہ ان مشترک بکریوں میں اس کا حصہ صرف چالیس بکریاں ہیں اسے بھی ایک ہی بکری دینی پڑی اور اور دوسرے شخص نے بھی ایک بکری دی جس کا حصہ ایک سو ساٹھ بکریاں ہیں ( اسی کے بارے میں فرمایا جا رہا ہے کہ زکوۃ وصول کرنے والا تو دونوں سے ایک ایک بکری وصول کرے گا لیکن پھر بعد میں دونوں کو چاہئے کہ وہ اپنے اپنے حصے کے مطابق حساب کر لیں یعنی پہلا شخص کہ جس کی چالیس بکریاں ہیں دوسرے شخص کہ جس کی ایک سو ساٹھ بکریاں اپنی دی ہوئی بکری کے تین خمس وصول کرے اس حساب سے چالیس بکریوں کے مالک پر اس کے حصہ کے مطابق دو خمس پڑیں گے اور باقی ایک سو ساٹھ بکریوں کے مالک پر اس کے حصے کے مطابق پڑ جائیں گے۔ چنانچہ ارشاد گرامی فانہما یتراجعان بالسویۃ، (انہیں چاہئے کہ وہ دونوں برابر برابر تقسیم کر لیں) کے یہ معنی ہیں۔