نصاب زکوۃ
راوی:
وعن أبي سعيد الخدري قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " ليس فيما دون خمسة أوسق من التمر صدقة وليس فيما دون خمس أواق من الورق صدقة وليس فيما دون خمس ذود من الإبل صدقة "
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا پانچ وسق سے کم کھجوروں میں زکوۃ واجب نہیں پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں زکوۃ واجب نہیں اور پانچ راس سے کم اونٹوں میں زکوۃ واجب نہیں۔ (بخاری ومسلم)
تشریح
ایک وسق آٹھ صاع کے برابر، ایک صاع آٹھ رطل کے برابر اور ایک رطل چونتیس تولہ ڈیڑھ ماشہ کے برابر ہوتا ہے حساب سے پانچ وسق انگریزی اسی طولی کے سیر کے حساب پچیس من ساڑھے بارہ سیر (نو کونٹل چوالیس کلو گرام ) کے برابر ہوتے ہیں گویا پچیس من12,1/2سیر یا اس سے زائد کھجوروں میں دسواں حصہ زکوۃ کے طور پر نکالا جائے گا اس مقدار سے کم اگر کھجوریں پیدا ہوں تو اس حدیث کے بموجب اس میں زکوۃ کے طور پر دسواں حصہ واجب نہیں ہو گا چنانچہ حضرت امام شافعی اور حنفیہ میں سے حضرت امام ابویوسف اور حضرت امام محمد رحمہم اللہ کا یہی مسلک ہے حضرت امام ابوحنیفہ کے نزدیک زمین کی پیداوار میں کوئی نصاب مقرر نہیں ہے جس قدر بھی پیداوار ہو اس کا دسوں حصہ زکوۃ میں نکالنا واجب ہے مثلاً اگر دس سیر پیداوار ہو تو اس میں سے ایک سیر زکوۃ کے طور پر نکالا جائے اور اگر دس ہی چھٹانک پیدا ہو تو اس سے بھی ایک چھٹانک نکالا جائے زمین کی دوسری پیداوار مثلاً گیہوں جو چنا وغیرہ کا بھی یہی حکم ہے۔ زمین کی پیداوار کے عشر کے بارے میں حنفیہ کا فتویٰ امام اعظم ہی کے قول پر ہے۔ یہ حدیث چونکہ امام اعظم رحمہ اللہ کے مسلک کے بظاہر خلاف معلوم ہوتی ہے اس لئے ان کی طرف سے اس حدیث کی توجیہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ حدیث میں کھجور سے مراد وہ کھجوریں ہیں جو تجارت کے لئے ہوں کیونکہ اس وقت عام طور پر کھجوروں کی خرید و فروخت وسق کے حساب سے ہوتی تھی اور ایک وسق کھجور کی قیمت چالیس درہم ہوتی تھی اس حساب سے پانچ وسق کی قیمت دو سو درہم ہوئے جو مال تجارت میں زکوۃ کے لئے متعین نصاب ہے۔
اواق اوقیہ کی جمع ہے ایک اوقیہ چالیس درہم یعنی ساڑھے دس تولہ (122۔ 47 گرام) کے برابر ہوتا ہے اس طرح پانچ اوقیہ دو سو درہم یعنی 52,1/2تولہ تقریباً 216,1/2گرام کے برابر ہوئے جو چاندی کا نصاب زکوۃ ہے اس مقدار سے کم چاندی میں زکوۃ واجب نہیں ہے گویا جو شخص دو سو درہم کا مالک ہو گا وہ بطور زکوۃ پانچ درہم ادا کرے گا۔
یہ تو درہم کا نصاب تھا چاندی اگر سکہ کے علاوہ کسی دوسری صورت میں ہو مثلا چاندی کے زیورات و برتن ہوں یا چاندی کے سکے ہوں تو اس کو بھی اسی پر قیاس کی جائے اور اسی طرح اس کی زکوۃ ادا کی جائے ۔ پھر بھی تفصیل سے چاندی کے نصاب کو یوں سمجئے کہ ۔
ایک درہم تین تین ماشہ ایک رتی اور پانچواں حصہ رتی کے برابر ہوتا ہے اس طرح دو سو میں چھ سو تیس ماشہ یعنی ساڑھے باون تولہ تولہ تقریبا ساڑھے دو سو سولہ گرام چاندی ہوئی ۔ لہٰذا دو سو درہم کی زکوۃ کی چالیسویں حصہ کے مطابق پانچ درہم ہوئے جو پندرہ ماشہ چھ رتی یعنی ایک تولہ میں ماشہ چھ رتی کے برابر ہوتے ہیں۔ اسی طرح درہم کے علاوہ چاندی کے زیورات یا برتن وغیرہ کی صورت میں ساڑھے باون تولہ یعنی ساڑھے دو سو سولہ گرام ہو تو اس کی زکوۃ کے طور پر چالیسواں حصہ ایک تولہ تین ماشہ چھ رتی یعنی ساڑھے پندرہ گرام چاندی یا اتنی ہی چاندی کی قیمت زکوۃ کے طور پر ادا کی جاے گی اور اگر چاندی سکے کی شکل میں ہو اور ایک سکہ بارہ ماشہ اور قیمت کے اعتبار سے ایک روپیہ کا ہو تو اس حساب سے ساڑھے باون تولہ چاندے کے ساڑھے باون روپے ہوئے لہٰذا ان کی زکوۃ کے طور پر اسی چاندی کے روپے کے حساب سے یعنی وہی بارہ ماشہ والا ایک روپیہ پانچ آنے واجب ہوں گے اور اگر سکہ ساڑھے گیارہ ماشہ اور قیمت کے اعتبار سے ایک روپیہ کا ہو تو اس حساب سے ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت چون روپے بارہ آنے چھ صحیح چھ بٹا تیس پائی کے برابر ہو گی جس پر زکوۃ واجب ہو گی لہٰذا اس میں سے اس چاندی کے روپے کے حساب سے یعنی وہی ساڑھے گیارہ ماشہ والا ایک روپیہ پانچ آنے دس پائی اور بتیس بٹا تئیس پائی بطور زکوۃ نکالنا ہوگا۔ مذکورہ بالا تفصیل کو حسب ذیل جدول سے سمجھئے۔
تعداد درہم
تعین زکوۃ
وزن چاندی
تعین زکوۃ
سکہ بارہ ماشہ والا
زکوۃ
سکہ ساڑھے گیارہ ماشہ والا
زکوۃ
٢٠٠ درہم
٥درہم
ساڑھے ٥٢تولہ
ایک تولہ تین ماشہ چھ رتی
قیمتی ۔۔قابل اصلاح
نصاب کا یہ سارا حساب سمجھنے کے لئے لکھا گیا ہے ۔ اگر نصاب سے زیادہ روپے ہوں تو اس کا سیدھا حساب یہ ہے کہ ڈھائی روپیہ فی سیکڑا یعنی ہر سو روپیہ میں ڈھائی روپے کے حساب سے زکوۃ ادا کی جائے گی۔
اگرچہ حدیث میں سونے کا نصاب ذکر نہیں کیا گیا لیکن اس کے بارے میں بھی جانتے چلئے کہ سونے کا نصاب بیس مثقال یعنی ساڑھے ساتھ تولہ تقریبا ساڑھے ستائس گرام ہے اس سے کم میں زکوۃ واجب نہیں ہوتی اگر اس مقدار میں یا اس سے زائد مقدار میں سونا ہو تو موجودہ مقدار کا چالیسواں حصہ یا اس حصہ کی قیمت زکوۃ کے طور پر ادا کی جائے گی۔
اگر سونا اور چاندی دونوں مجموعی اعتبار سے بقدر نصاب ہوں تو ان میں زکوۃ واجب ہو گی مثلاً کسی شخص کے پاس سوا چھبیس تولہ چاندی ہو اور اسی کے ساتھ سوا چھبیس تولہ چاندی کی قیمت کے بقدر سونا بھی ہو تو وہ شخص صاحب نصاب کہلائے گا اور اس پر زکوۃ واجب ہو گی یا اسی طرح اگر کسی شخص کے پاس سوا چھبیس تولہ چاندی کی قیمت کے بقدر تجارت کا مال ہو اور اسی کے ساتھ سوا چھبیس تولہ چاندی کی قیمت کے بقدر نقد روپیہ ہو تو وہ بھی صاحب نصاب کہلائے گا اور اس پر بھی زکوۃ واجب ہو گی۔
سونا اور چاندی کسی بھی شکل و صورت میں ہوں خواہ وہ گئی اور ڈلی کی صورت میں ہوں یا پترے ہون خواہ زیورات کی شکل میں ہوں یا برتنوں کی صورت میں ہوں بہر صورت ان میں زکوۃ واجب ہو گی اس سے معلوم ہوا کہ گوٹہ کناری اور کمخواب وغیرہ میں جو چاندی ہوتی ہے اس کی مقدار کا بھی اندازہ کرایا جائے اگر وہ مقدار نصاب کو پہنچے تو اس کی زکوۃ بھی ادا کی جائے موتی، مونگا، یا قوت اور دوسرے جواہرات میں زکوۃ واجب نہیں ہوتی خواہ لاکھوں روپیہ کی قیمت ہی کے کیوں نہ موجود ہوں ہاں اگر جواہرات تجارت کے مقصد سے ہوں گے تو ان پر زکوۃ واجب ہو گی۔