جن چیزوں میں زکوۃ واجب ہوتی ہے ان کا بیان
راوی:
شریعت نے چار قسم کے مالوں پر زکوۃ فرض کی ہے (١) سائمہ جانوروں پر (٢) سونے چاندی پر (٣) تجارتی مال پر خواہ وہ کسی قسم کا ہو (٤) کھیتی اور درختوں کی پیداوار پر گو اس چوتھی قسم کو فقہاء زکوۃ کے لفظ سے ذکر نہیں کرتے بلکہ اسے عشر کہتے ہیں چنانچہ متفقہ طور تمام ائمہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ چوبایہ جانوروں یعنی اونٹ گائے، بکری، دنبہ، بھیڑ اور بھینس میں زکوۃ واجب ہے خواہ جانور نر ہوں یا مادہ ان کے علاوہ اور جانوروں میں زکوۃ واجب نہیں ہے۔ البتہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک گھوڑوں میں بھی زکوۃ واجب ہے اس کی تفصیل اگلے صفحات میں بیان کی گائے گی اسی طرح متفقہ طور پر تمام ائمہ کے نزدیک سونے چاندی اور تجارت کے مال میں زکوۃ واجب ہے۔
جو چیزیں ایک سال تک قائم نہ رہتی ہوں جیسے ککڑی، کھیرا، خربوزہ اور دوسری ترکاریاں ساگ وغیر ان میں دوسرے ائمہ کے نزدیک زکوۃ واجب نہیں ہے البتہ کھجوروں اور کشمش میں زکوۃ واجب ہے جب کہ ان کی مقدار پانچ وسق تک ہو پانچ وسق سے کم مقدار میں ان میں بھی زکوۃ واجب نہیں ہے۔
حضرت امام ابوحنیفہ کے ہاں ہر اس چیز میں عشر یعنی دسواں حصہ نکالنا واجب ہے جو زمین سے پیدا ہو خواہ پیداوار کم ہو یا زیادہ ہو لیکن بانس، لکڑی اور گھاس میں عشر واجب نہیں ہے اس بارے میں حضرت امام صاحب کی دلیل آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی ہے کہ ما اخرجتہ الارض ففیہ العشر۔ زمین سے پیدا ہونے والی ہر چیز میں دسواں حصہ نکالنا واجب ہے۔
زمین کی پیداوار میں عشر واجب ہونے کے لئے کسی مقدار معین کی شرط نہیں ہے اسی طرح سال گزرنے کی بھی قید نہیں بلکہ جس قدر اور واجب بھی پیدا وار ہو گی اسی وقت دسواں حصہ نکالنا واجب ہو جائے گا دوسرے مالوں کے برخلاف کہ ان میں زکوۃ اسی وقت واجب ہوتی ہے جب کہ وہ بقدر نصاب ہوں اور ان پر ایک سال پورا گزر جائے۔