زکوۃ لانے والوں کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعائے رحمت
راوی:
عن أبي هريرة . قال : بعث رسول الله صلى الله عليه و سلم عمر على الصدقة . فقيل : منع ابن جميل وخالد بن الوليد والعباس . فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " ما ينقم ابن جميل إلا أنه كان فقيرا فأغناه الله ورسوله . وأما خالد فإنكم تظلمون خالدا . قد احتبس أدراعه وأعتده في سبيل الله . وأما العباس فهي على . ومثلها معها " . ثم قال : " يا عمر أما شعرت أن عم الرجل صنوا أبيه ؟ "
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عمر کو زکوۃ وصول کرنے کے لئے مقرر فرمایا کسی شخص نے آ کر خبر دی کہ ابن جمیل خالد ابن ولید اور حضرت عباس نے زکوۃ ادا نہیں کی یہ سن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ابن جمیل نے تو زکوۃ دینے سے اس لئے انکار کیا کہ وہ پہلے مفلس و قلاش تھا اور اب اللہ تعالیٰ نے اور اس کے رسول نے اسے دولت مند بنا دیا خالد بن ولید کی بات یہ ہے کہ ان پر تم لوگ ظلم کر رہے ہو کہ اصل میں ان پر زکوۃ واجب ہی نہیں ہے۔ مگر تم ان سے زکوۃ وصول کرنے کے خواہشمند ہو کیونکہ انہوں نے تو اپنی زرہیں اور سامان جنگ یعنی ہتھیار، جانور اور جنگ کا دوسرا سامان اللہ کی راہ میں یعنی جہاد کے لئے وقف کر رکھا ہے لہٰذا تم جو ان کے مال و اسباب کو تجارت کا مال سمجھتے ہو وہ غلط ہے اور جہاں تک حضرت ابن عباس کا تعلق ہے تو بات یہ ہے کہ ان کی زکوۃ مجھ پر ہے اور نہ صرف اسی سال کی بلکہ اس کے مثل اور آئندہ سال کی بھی ۔ پھر فرمایا کہ عمر! کیا تم نہیں جانتے کہ کسی شخص کا چچا اس کے باپ کی مانند ہوتا ہے لہٰذا تم لوگ عباس کو میرے باپ کی جگہ سمجھو ان کی تعظیم و توقیر کرو اور انہیں کسی بھی طرح رنج و تکلیف نہ پہنچاؤ۔ (بخاری ومسلم)
تشریح
ابن جمیل پہلے منافق تھے پھر بعد میں مسلمان ہو گئے یہ بہت زیادہ تنگ دست و محتاج تھے انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر درخواست کی کہ میرے لئے ثروت و دولت کی دعا فرمائیں میں اللہ کی عطا کی ہوئی نعمتوں کا شکر ادا کروں گا چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے لئے دعا فرمائی اور یہ صاحب ثروت ہو گئے لہٰذا ان کا فرض تھا کہ جب اللہ تعالیٰ نے ان کی تنگدستی و محتاجی کو مال و دولت میں تبدیل کر دیا تو اللہ کا شکر ادا کرتے مگر انہوں نے کفران نعمت کیا یہاں تک کہ زکوۃ کی ادائیگی سے بھی انکار کیا اسی لئے اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے بارے میں بطور زجر و تنبیہ مذکورہ کلمات کا ارشاد فرمایا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ارشاد گرامی ، اللہ تعالیٰ نے اور اس کے رسول نے اسے دولت مند بنا دیا ہے، میں ابن جمیل کو دولت مند بنانے کی نسبت اپنی طرف اس اعتبار سے کی کہ آپ نے اس مقصد کے لئے بارگاہ الوہیت میں دعا فرمائی تھی اور آپ ہی کی دعا کی وجہ سے ابن جمیل دولت مند بنے۔
یہ سب ہی جانتے ہیں کہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گرامی قدر چچا تھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی زکوۃ کو اپنے ذمہ اس لئے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے دو سالوں کی ایک ہی مرتبہ پہلے ہی سے وصول کر لی تھی یعنی ان کی طرف سے سال رواں کی زکوۃ بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آ چکی تھی کہ جس کا مطالبہ کیا جا رہا تھا اور آئندہ سال کی زکوۃ بھی لے لی تھی جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ارشاد گرامی و مثلہا معہا کے ذریعہ واضح بھی فرمایا۔