طاعون زدہ علاقہ کے بارہ میں واضح ہدایت وضابطہ
راوی:
وعن أسامة بن زيد قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " الطاعون رجز أرسل على طائفة من بني إسرائيل أو على من كان قبلكم فإذا سمعتم به بأرض فلا تقدموا عليه وإذا وقع بأرض وأنتم بها فلا تخرجوا فرارا منه "
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا " طاعون عذاب ہے جو بنی اسرائیل کی ایک جماعت پر بھیجا گیا تھا " یا فرمایا کہ ان لوگوں پر جو تم سے پہلے تھے" (یعنی راوی کو شک ہو گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلا جملہ ارشاد فرمایا تھا یا دوسرا) لہٰذا جب تم کسی علاقہ کے بارہ میں سنو کہ وہاں طاعون پھیلا ہوا ہے تو وہاں مت جاؤ اور جس طاعون زدہ علاقہ میں تم (پہلے سے) موجود ہو تو وہاں سے نکل مت بھاگو۔" (بخاری ومسلم)
تشریح
بنی اسرائیل کی ایک جماعت سے مراد وہ جماعت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا تھا کہ ادخلوا الباب سجدا (یعنی داخل ہو دروازہ میں سجدہ کرتے ہوئے) مگر انہوں نے سرکشی اور نافرمانی کا مظاہرہ کیا چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آیت (فانزلنا علیہم رجزا من السماء) یعنی پس ہم نے ان کی سرکشی و نافرمانی کی وجہ سے) ان پر آسمان سے عذاب اتارا۔ ابن مالک فرماتے ہیں کہ وہ " آسمانی عذاب" طاعون تھا جسے اللہ تعالیٰ نے اس بدبخت و سرکش قوم پر نازل فرمایا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس عذاب و بلا میں مبتلا ہو کر اس قوم کے چوبیس ہزار بڑے بڑے بوڑھے آناً فاناً موت کے گھاٹ اتر گئے۔
اس حدیث میں طاعون زدہ علاقہ کے بارے میں دو ہدایتیں دی جا رہی ہیں ایک تو یہ کہ جس علاقہ میں طاعون پھیلا ہوا ہو اور تم وہاں پہلے سے موجود نہ ہو تو اب طاعون پھیلنے کی وجہ سے اس علاقہ میں نہ جاؤ۔ اس سے منع فرمایا جا رہا ہے تاکہ اپنی جان کو جانتے بوجھتے ہلاکت میں ڈالنا لازم نہ آئے۔
دوسری ہدایت یہ ہے کہ جس علاقہ میں طاعون پھیلا ہوا ہو تو وہاں پہلے سے موجود ہو تو اب محض طاعون پھیلنے کی وجہ سے اس علاقہ سے نکل کر کسی دوسری جگہ نہ بھاگ جاؤ۔ کیونکہ اس طرح کی تکلیف و پریشانی کے خوف سے اور موت کے ڈر سے بھاگنے کا مطلب ہو گا کہ تقدیر کے لکھے ہوئے فیصلہ سے فرار اختیار کرنا جو لا حاصل ہے۔ لہٰذا کسی عام وبا پھیلنے کے وقت کے بارے میں شریعت اسلامی کا یہی ضابطہ ہے کہ جس طرف وبا پھیلی ہوئی ہو وہاں جائے نہیں اور جس جگہ پہلے سے موجود تھا اور وہاں وبا پھیل گئی تو پھر وہاں سے بھاگے نہیں جو شخص بھاگے گا وہ گناہ کبیرہ کا مرتکب اور راندہ درگاہ الٰہی ہو گا " ہاں وبا کے علاوہ دوسرے بعض مواقع پر جہاں ہلاکت کا ظن غالب ہو بھاگنے کی اجازت ہے مثلاً کوئی شخص گھر میں ہو اور زلزلہ آ جائے یا گھر میں آگ لگ جائے یا اسی طرح کسی ایسی دیوار کے نیچے بیٹھا ہوا ہو جس کے گرنے کا خطرہ ہو تو جان بچانے کے لئے وہاں سے بھاگنا جائز ہے۔