مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ زکوۃ کا بیان ۔ حدیث 269

مانعین زکوۃ پر عذاب کی تفصیل

راوی:

وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " ما من صاحب ذهب ولا فضة لا يؤدي منها حقها إلا إذا كان يوم القيامة صفحت له صفائح من نار فأحمي عليها في نار جهنم فيكوى بها جنبه وجبينه وظهره كلما بردت أعيدت له في يوم كان مقداره خمسين ألف سنة حتى يقضى بين العباد فيرى سبيله إما إلى الجنة وإما إلى النار " قيل : يا رسول الله فالإبل ؟ قال : " ولا صاحب إبل لا يؤدي منها حقها ومن حقها حلبها يوم وردها إلا إذا كان يوم القيامة بطح لها بقاع قرقر أوفر ما كانت لا يفقد منها فصيلا واحدا تطؤه بأخفافها وتعضه بأفواهها كلما مر عليه أولاها رد عليه أخراها في يوم كان مقداره خمسين ألف سنة حتى يقضى بين العباد فيرى سبيله إما إلى الجنة وإما إلى النار " قيل : يا رسول الله فالبقر والغنم ؟ قال : " ولا صاحب بقر ولا غنم لا يؤدي منها حقها إلا إذا كان يوم القيامة بطح لها بقاع قرقر لا يفقد منها شيئا ليس فيها عقصاء ولا جلحاء ولا عضباء تنطحه بقرونها وتطؤه بأظلافها كلما مر عليه أولاها رد عليه أخراها في يوم كان مقداره خمسين ألف سنة حتى يقضى بين العباد فيرى سبيله إما إلى الجنة وإما إلى النار " . قيل : يا رسول الله فالخيل ؟ قال : " الخيل ثلاثة : هي لرجل وزر وهي لرجل ستر وهي لرجل أجر . فأما التي هي له وزر فرجل ربطها رياء وفخرا ونواء على أهل الإسلام فهي له وزر . وأما التي له ستر فرجل ربطها في سبيل الله ثم لم ينس حق الله في ظهورها ولا رقابها فهي له ستر . وأما التي هي له أجر فرجل ربطها في سبيل الله لأهل الإسلام في مرج أو روضة فما أكلت من ذلك المرج أو الروضة من شيء إلا كتب له عدد ما أكلت حسنات وكتب له عدد أرواثها وأبوالها حسنات ولا تقطع طولها فاستنت شرفا أو شرفين إلا كتب الله له عدد آثارها وأوراثها حسنات ولا مر بها صاحبها على نهر فشربت منه ولا يريد أن يسقيها إلا كتب الله له عدد ما شربت حسنات " قيل : يا رسول الله فالحمر ؟ قال : " ما أنزل علي في الحمر شيء إلا هذه الآية الفاذة الجامعة ( فمن يعمل مثقال ذرة خيرا يره ومن يعمل مثقال ذرة شرا يره )
الزلزلة . رواه مسلم

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا " جو شخص سونے اور چاندی (کے نصاب) کا مالک ہو اور اس کا حق یعنی زکوۃ ادا نہ کرے تو قیامت کے دن اس کے لئے آگ کے تختے بنائے جائیں گے (یعنی تختے تو سونے اور چاندی کے ہوں گے مگر انہیں آگ میں اس قدر گرم کیا جائے گا کہ گویا وہ آگ ہی کے تختے ہوں گے اسی لئے آپ نے آگے فرمایا کہ وہ تختے دوزخ کی آگ میں گرم کئے جائیں گے اور ان تختوں سے اس شخص کے پہلو، اس کی پیشانی اور اس کی پیٹھ داغی جائے گی پھر ان تختوں کو (اس بدن سے) جدا کیا جائے اور آگ میں گرم کر کے پھر لایا جائے گا (یعنی جب وہ تختے ٹھنڈئے ہو جائیں گے تو انہیں دوبارہ گرم کرنے کے لئے آگ میں ڈالا جائے گا اور وہاں سے نکال کر اس شخص کے بدن کو داغا جائے گا) اور اس دن کی مقدار کہ جس میں یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہے گا پچاس ہزار سال کی ہو گی یہاں تک کہ بندوں کا حساب کتاب ختم ہو جائے گا اور وہ شخص جنت یا دوزخ کی طرف اپنی راہ دیکھے گا۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! یہ عذاب تو نقدی یعنی سونے چاندی کے بارے میں ہو گا اونٹ کی زکوۃ نہ دینے والوں کا کیا حشر ہو گا؟ آپ نے فرمایا جو شخص اونٹ کا مالک ہو اور اس کا حق یعنی زکوۃ ادا نہ کرے، اور اونٹوں کا ایک حق یہ بھی ہے کہ جس روز انہیں پانی پلایا جائے ان کا دودھ دوہا جائے تو قیامت کے دن اس شخص کو اونٹوں کے سامنے ہموار میدان میں منہ کے بل اوندھا ڈال دیا جائے گا اور اس کے سارے اونٹ گنتی اور مٹاپے میں پورے ہوں گے مالک ان میں سے ایک بچہ بھی کم نہ پائے گا یعنی اس شخص کے سب اونٹ وہاں موجود ہوں گے۔ حتی کہ اونٹوں کے سب بچے بھی ان کے ساتھ ہوں گے پھر یہ کہ وہ اونت خوب فربہ اور موٹے تازے ہوں گے تاکہ اپنے مالک کو روندتے وقت خوب تکلیف پہنچائیں چنانچہ وہ اونٹ اس شخص کو اپنے پیروں سے کچلیں گے اور اپنے دانتوں سے کاٹیں گے جب ان اونٹوں کی جماعت روند کچل اور کاٹ کر چلی جائے تو دوسری جماعت آئے گی یعنی اونٹوں کی قطار روند کچل کر چلی جائے گی تو اس کے پیچھے دوسری قطار آئے گی اسی طرح یہ سلسلہ جاری رہے گا اور جس دن یہ ہو گا اس دن کی مقدار پچاس ہزار سال کی ہو گی یہاں تک کہ بندوں کا حساب کتاب کر دیا جائے گا اور وہ شخص جنت یا دوزخ کی طرف اپنی راہ دیکھے گا صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! گائے اور بکریوں کے مالک کا کیا حل ہو گا؟ آپ نے فرمایا جو شخص گائیوں اور بکریوں کا مالک ہو اور ان کا حق یعنی زکوۃ ادا نہ کرے تو قیامت کے دن اسے ہموار میدان میں اوندھے منہ ڈال دیا جائے گا اور اس کی گایوں اور بکریوں کو وہاں لایا جائے گا جن میں سے کچھ کم نہیں ہو گا ان میں سے کسی گائے بکری کے سینگ نہ مڑے ہوں گے نہ ٹوٹے ہوں گے اور نہ وہ منڈی یعنی بلا سینگ ہوں گی یعنی ان سب کے سروں پر سینگ ہوں گے نہ ٹوٹے ہوں گے اور سالم ہوں گے۔ تاکہ وہ اپنے سینگوں سے خوب مار سکیں چنانچہ وہ گائیں اور بکریاں اپنے سینگوں سے اپنے مالک کو ماریں گی اور اپنے کھروں سے کچلیں گی اور جب ایک قطار اسے مار کچل کر چلی جائے گی تو دوسری قطار آئے گی اور اپنا کام شروع کر دے گی اور یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہے گا اور جس دن یہ ہو گا اس کی مقدار پچاس ہزار سال کی ہو گی یہاں تک کہ بندوں کا حساب کتاب کیا جائے گا اور وہ شخص جنت یا دوزخ کی طرف اپنی راہ دیکھے گا صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! گھوڑوں کے بارہ میں کیا حکم ہے۔ آپ نے فرمایا گھوڑے تین قسم کے ہوتے ہیں ایک تو وہ گھوڑے جو آدمی کے لئے گناہ کا سبب ہوتے ہیں اس شخص کے گھوڑے جنہیں اس کے مالک اظہار فخر و غرور اور مال دار اور ریاء کے لئے اور مسلمانوں سے دشمنی کے واسطے باندھے چنانچہ وہ گھوڑے اپنے مالک کے لئے گناہ کا سبب بنتے ہیں اور وہ گھوڑے جو آدمی کے لئے پردہ ہوتے ہیں اس شخص کے گھوڑے ہیں جنہیں اس کے مالک نے اللہ کی راہ میں کام لینے کے لئے باندھا اور ان کی پیٹھ اور ان کی گردن کے بارہ میں وہ اللہ کے حق کو نہیں بھولا چنانچہ وہ گھوڑے اپنے مالک کے لئے پردہ ہیں اور وہ گھوڑے جو آدمی کے لئے ثواب کا سبب و ذریعہ بنتے ہیں اس شخص کے گھوڑے ہیں جنہیں ان کا مالک اللہ کی راہ میں لڑنے کے لئے مسلمانوں کے واسطے باندھے اور چراگاہ و سبزہ میں رکھے چنانچہ جب وہ گھوڑے چراگاہ و سبزہ سے کچھ کھاتے ہیں تو جو کچھ انہوں نے کھایا یعنی گھاس وغیرہ کی تعداد کے بقدر اس کے لئے نیکیاں لکھی جاتی ہیں یہاں تک کہ ان گھوڑوں کی لید اور ان کے پیشاب کے بقدر بھی اس کے لئے نیکیاں لکھی جاتی ہیں کیونکہ لید اور پیشاب بھی گھوڑے کی زندگی کا باعث ہیں اور گھوڑے رسی توڑ کر ایک یا دو میدان دوڑتے پھرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کے قدموں کے نشانات اور ان کی لید جو وہ اس دوڑنے کی حالت میں کرتے ہیں کی تعداد کے برابر اس شخص کے لئے نیکیاں لکھتا ہے اور جب وہ شخص ان گھوڑوں کو نہر پر پانی پلانے کے لئے لے جاتا ہے اور وہ نہر سے پانی پیتے ہیں اگرچہ مالک کا ارادہ ان کو پانی پلانے کا نہ ہو، اللہ تعالیٰ گھوڑوں کے پانی پینے کے بقدر اس شخص کے لئے نیکیاں لکھتا ہے صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اچھا گدھوں کے بارہ میں کیا حکم ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا گدھوں کے بارہ میں مجھ پر کوئی حکم نازل نہیں ہوا لیکن تمام نیکیوں اور اعمال کے بارہ میں یہ آیت جامع ہے (فَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَّرَه Ċ وَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَّرَه Ď ) 99۔ الزلزلۃ : 7۔8) یعنی جو شخص ایک ذرہ کے برابر نیکی کا عمل کرے گا اسے دیکھے گا اور جو شخص ایک ذرہ کے برابر برائی کا عمل کرے گا اسے دیکھے گا۔ (یعنی مثلاً کوئی شخص کسی دوسرے کو نیک کام کے لئے جانے کے واسطے اپنا گدھا دے گا تو ثواب پائے گا اور اگر برے کام کے لئے دے گا تو گناہگار ہو گا) مسلم۔

تشریح
قیامت کے دن کی مقدار پچاس ہزار سال کے برابر بتائی گئی ہے لیکن اس کا تعلق کافروں کے ساتھ ہے یعنی قیامت کا دن کافروں کو پچاس ہزار سال کے بقدر دراز معلوم ہو گا بقیہ گناہگاروں کو ان کے گناہ کے بقدر دراز محسوس ہو گا اگر کسی کے گناہ کم اور ہلکے ہوں گے تو اسے وہ دن اسی اعتبار سے کم دراز محسوس ہو گا اور اگر کسی کے گناہ زیادہ اور شدید نوعیت کے ہوں گے تو اسے وہ دن بھی اس کی اعتبار سے دراز محسوس ہو گا یہاں تک کہ اللہ کے نیک بندوں یعنی مومنین و کاملین کو وہ پورا دن صرف دو رکعت نماز کے بقدر معلوم ہو گا گویا جتنی دیر میں دو رکعت نماز پڑھی جاتی ہے انہیں وہ دن صرف اتنے عرصہ کے بقدر محسوس ہو گا۔
فیری سبیلہ اما الی الجنۃ الخ اور وہ جنت یا دوزخ کی طرف اپنی راہ دیکھے گا اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر اس شخص کے نامہ اعمال میں اس ترک زکوۃ کے گناہ کے علاوہ اور کوئی گناہ نہیں ہو گا اور مذکورہ عذاب کہ جس میں اسے مبتلا کیا جائے گا اس کے اس گناہ کو دور کر دے گا تو اس کے بعد وہ جنت میں چلا جائے گا اور اللہ نخواستہ اگر اس کا نامہ اعمال میں ترک زکوۃ کے علاوہ اور گناہ بھی ہوں گے یا یہ کہ مذکورہ عذاب کے بعد بھی ترک زکوۃ کا گناہ اس سے دور نہیں ہو گا تو پھر وہ دوزخ میں داخل کیا جائے گا۔
حتی یقضی بین العباد میں اس طرف اشارہ ہے کہ قیامت کے دن میدان حشر میں دوسری مخلوق اللہ تو حساب کتاب میں مشغول ہو گی مگر وہ لوگ جنہوں نے زکوۃ ادا نہیں کی تھی عذاب میں مبتلا ہوں گے۔
ومن حقہا حلبہا یوم وردہا اونٹوں کا ایک حق یہ بھی ہے الخ۔ اونٹ والوں کا یہ قاعدہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے اونٹوں کو تیسرے دن یا چوتھے دن پانی کی جگہ پانی پلانے لے جاتے ہیں چنانچہ عرب میں ایک یہ معمول بھی تھا کہ جس جگہ پانی پلانے کے لئے اونٹ لائے جاتے تھے وہاں لوگ جمع ہو جاتے تھے اونٹ والے اپنے اونٹوں کو وہاں پانی پلانے لاتے اور وہیں اونٹوں کا دودھ نکال کر وہاں جمع لوگوں کو پلا دیا کرتے چنانچہ اس کے بارہ میں فرمایا جا رہا ہے کہ اگرچہ اونٹوں کا واجب حق تو صرف یہی ہے کہ ان کی زکوۃ ادا کی جائے مگر ان کے اور دوسرے حقوق میں سے ایک مستحب حق یہ بھی ہے کہ جس دن اونٹ پانی پینے جائیں اس دن کا دودھ وہ غرباء و مساکین کو پلایا جائے لہٰذا یہ فعل اگرچہ مستحب ہے لیکن از راہ مروت و ہمدردی اور بربنائے ادائے شکر حق گویا واجب کا حکم رکھتا ہے اسی لئے اس کے بارہ میں اتنی اہمیت کے ساتھ بیان فرمایا گیا چنانچہ حدیث کے ظاہر الفاظ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس حق کی عدم ادائیگی کی صورت میں عذاب بھی ہو سکتا ہے۔
ولایرید ان یسقیہا (اگرچہ مالک کا ارادہ ان کو پانی پلانے کا نہ ہو) مطلب یہ ہے کہ مالک گھوڑے کو پانی پلانے کا ارادہ نہ رکھے بلکہ اس کے ارادہ و قصد کے بغیر گھوڑا پانی پیے تو اس کے بارے میں مذکورہ ثواب بیان کی گیا ہے اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اگر مالک خود ارادہ و قصد کر کے گھوڑے کو پانی پلائے گا تو اس کا کیا کچھ ثواب اسے ملے گا گھوڑوں کے بارہ میں صحابہ کے سوال پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو جواب دیا اس کا اسلوب پہلے جوابات کے اسلوب سے مختلف ہے اس موقعہ پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جواب کا جو اسلوب اختیار فرمایا ہے اسے جواب علی اسلوب الحکیم کہتے ہیں گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سوال کرنے والے صحابہ سے فرمایا کہ گھوڑوں کا جو حق واجب ہے یعنی زکوۃ وغیرہ صرف اس کے بارہ میں مت پوچھو کہ ان گھوڑوں کی وجہ سے ان کے پالنے والے سعادت و نیک بختی اور بھلائی کے کیسے کیسے مقام حاصل کرتے ہیں اور انہیں ان گھوڑوں سے کیا نفع پہنچتا ہے اسی طرح دوسرا پہلو بھی کہ ان پالنے والوں کو کیسے کیسے گناہ ملتے ہیں اور انہیں کیا نقصان پہنچتا ہے۔
اسی بنیاد پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گھوڑوں کی تین قسمیں بیان کی ہیں۔ (١) وہ گھوڑے جو اپنے مالک کے لئے گناہ کا سبب ہوتے ہیں اس کی تشریح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ فرمائی کہ اس سے وہ گھوڑے مراد ہیں جنہیں ان کے مالک نے اظہار فخر اور ریاء کے لئے باندھ رکھا ہو یعنی گھوڑے رکھنے سے اس کی غرض صرف یہ ہو کہ لوگ باگ اس کی حشمت و ثروت دیکھیں اور جانیں کہ یہ مجاہد ہے حالانکہ واقعہ میں وہ مجاہد نہیں ہے نیز فخر یہی مراد ہے کہ وہ گھوڑا اس نیت سے پالے کہ میں اپنے سے کمتر لوگوں پر اپنی بڑائی جتاؤں اور ان کے سامنے فخر کا اظہار کروں (٢) وہ گھوڑے جو اپنے مالک کے لئے پردہ ہوتے ہیں اس کی وضاحت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ فرمائی کہ اس سے وہ گھوڑے مراد ہیں جنہیں ان کے مالک نے اس لئے باندھا ہے تاکہ وہ اللہ کی راہ میں کام آئیں یہاں اللہ کی راہ سے مراد جہاد نہیں ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ گھوڑوں کو رکھنے اور باندھنے کا مقصد اظہار فخر و غرور اور ریاء نہ ہو بلکہ انہیں اچھی و نیک نیت سے رکھے مثلاً گھوڑے اس مقصد کے لئے پالے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری اور اچھے و نیک مقاصد کے لئے کام آئیں یا ان سے اپنی سواری مقصود ہو کہ اپنی مشروع و مباح ضرورتوں کے وقت ان پر سوار ہو سکے نیز یہ کہ اپنے فقر و احتیاج کی پردہ پوشی کرے جیسا کہ روایت میں فرمایا گیا ہے کہ ربطہا تغنبا وتعففا یعنی دوسروں سے مستغنی رہنے اور دوسروں کے آگے اپنی احتیاج و ضرورت کے اظہار سے بچنے کے لئے گھوڑا رکھنا چاہیے مثلاً تجارتی مقصد کے لئے عزیز و اقا رب اور دوست و احباب کے یہاں جانے کے لئے کھیت کھلیان میں آنے جانے کے واسطے یا اسی قسم کے دوسرے مقاصد کے وقت اگر گھوڑے کی ضرورت ہو تو کسی دوسرے کی طرف دیکھنا نہ پڑے بلکہ اپنا گھوڑا ہو تو وہ کام آئے اور غیروں کے آگے اظہار ضرورت کی شرمندگی سے بچائے۔ اسی لئے اس موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گھوڑے کو اپنے مالک کے لئے پردہ قرار دیا ہے کہ ایک طرف تو گھوڑا اپنے مالک کے فقر و احتیاج کے لئے پردہ پوش ہوتا ہے بایں طور کہ گھوڑے کی وجہ سے دوسروں کی نظروں میں اس کے مالک کا وقار اور برہم قائم رہتا ہے اور اس کی عزت بنی رہتی ہے۔ دوسری طرف گھوڑی کا مالک اپنی ضرورت و حاجت کے وقت کسی دوسرے شخص کے آگے اظہار حاجت اور دس سوال دراز کرنے سے بچا رہتا ہے۔
اس موقع پر اللہ کے راستہ سے یہ مفہوم اس لئے مراد لیا گیا ہے تاکہ ایک ہی عبارت میں تکرار لازم نہ آئے کیونکہ تیسری قسم کے ضمن میں مذکورہ اللہ کے راستہ سے مراد جہاد ہی ہے۔
اسی ضمن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گھوڑے کے مالک کا ایک وصف یہ بھی بیان کیا ہے کہ ان کی پیٹھ اور ان کی گردن کے بارہ میں وہ اللہ کے حق کو نہیں بھولا۔
چنانچہ اس ارشاد گرامی میں پیٹھ کے بارہ میں اللہ کا حق یہ ہے کہ وہ اس گھوڑے پر اچھے اور نیک کاموں کی خاطر سوار ہوا اور اگر کسی نے اس سے اپنی سواری کے لئے یا گھوڑیوں پر چھوڑنے کے لئے اس کا گھوڑا مانگا تو اس نے اس کی ضرورت پوری کی۔ اسی طرح گردن کے بارہ میں حق یہ ہے کہ ان کی زکوۃ ادا کی۔ مگر حضرات شوافع کی طرف سے اس ارشاد گرامی کا مطلب یہ بیان کیا جاتا ہے کہ مالک نے اپنے گھوڑے کی خبر گیری کی بایں طور کہ ان کے گھاس دانہ میں کوئی کمی نہیں کی انہیں ان کی پوری خوراک مہیا کی اور انہیں اگر کوئی مرض لاحق ہو یا کوئی تکلیف ہوئی تو اسے فورا دور کیا۔
گھوڑوں میں زکوۃ ہے یا نہیں؟
دراصل اس عبارت کے مفہوم کے تعین میں یہ اختلاف اس لئے واقع ہوا ہے کہ حضرت امام ابوحنیفہ کے نزدیک ان گھوڑوں میں زکوۃ واجب ہوتی ہے جو جنگل میں چرتے ہیں پھر گھوڑے کا مالک اس بارہ میں مختار ہے کہ چاہے تو وہ ان کی زکوۃ میں ہر گھوڑے پیچھے ایک دینار دے چاہے ان کی قیمت متعین کر کے ہر دو سو درہم میں سے پانچ درہم زکوۃ ادا کرے جیسا کہ زکوۃ کا حساب ہے۔
حضرت امام شافعی اور صاحبین کے ہاں گھوڑوں میں زکوۃ واجب نہیں ہوتی۔ ان حضرات کی دلیل آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ مسلمانوں پر ان کے گھوڑے اور غلام میں صدقہ واجب نہیں ہے۔ حضرت امام ابوحنیفہ کی طرف سے دلیل کے طور پر یہ حدیث پیش کی جاتی ہے کہ ہر گھوڑے پیچھے کہ جو جنگل میں چرے ایک دینار ہے۔
جہاں تک تعین قیمت پر زکوۃ کا تعلق ہے اس کے بارہ میں کہا جاتا ہے کہ یہ حضرت عمر فاروق سے منقول ہے حضرت شافعی بطور دلیل جو حدیث پیش کرتے ہیں اس کے بارہ میں حضرت امام اعظم کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ اس کا تعلق غازی و مجاہد کے گھوڑے سے ہے اسی طرح غلام سے مراد غلام ہے جو خدمت کے لئے رکھ چھوڑا ہو۔
(٣) وہ گھوڑے جو اپنے مالک کے لئے ثواب کا ذریعہ بنتے ہیں اس کی تشریح آپ نے یہ فرمائی کہ اس سے وہ گھوڑے مراد ہیں جسے اس کے مالک نے مسلمانوں کے لئے اللہ کی راہ میں باندھا ہے یہاں اللہ کے راستہ سے مراد جہاد ہی ہے یعنی اس نے اس مقصد کے لئے گھوڑے پال رکھے ہیں تاکہ جب جہاد کا وقت آئے تو اس پر سوار ہو کر دشمنان اسلام سے نبرد آزما ہو یا بوقت ضروت دوسرے مسلمانوں کو دے تاکہ وہ اس پر سوار ہو کر جہاد کریں۔

یہ حدیث شیئر کریں