مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ زکوۃ کا بیان ۔ حدیث 267

زکوۃ کا بیان

راوی:

" زکوۃ کے لفظی معنی ہیں" طہارت و برکت اور بڑھنا " اصطلاح شریعت میں زکوۃ کہتے ہیں اپنے مال کی مقدار متعین کے اس حصہ کو جو شریعت نے مقرر کیا ہے کسی مستحق کو مالک بنا دینا " زکوۃ کے لغوی معنی اور اصطلاحی معنی دونوں کو سامنے رکھ کر یہ سمجھ لیجیے کہ یہ فعل یعنی اپنے مال کی مقدار متعین کے ایک حصہ کا کسی مستحق کو مالک بنا دینا) مال کے باقی ماندہ حصے کو پاک کر دیتا ہے اس میں حق تعالیٰ کی طرف سے برکت عنایت فرمائی جاتی ہے اور اس کا وہ مال نہ صرف یہ کہ دنیا میں بڑھتا اور زیادہ ہوتا ہے بلکہ اخروی طور پر اللہ تعالیٰ اس کے ثواب میں اضافہ کرتا ہے اور اس کے مالک کو گناہوں اور دیگر بری خصلتوں مثلاً بخل وغیرہ سے پاک و صاف کرتا ہے اس لئے اس فعل کو زکوۃ کہا جاتا ہے۔
" زکوۃ" کو صدقہ بھی اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ فعل اپنے مال کا ایک حصہ نکالنے والے کے دعویٰ ایمان کی صحت و صداقت پر دلیل ہوتا ہے۔
زکوۃ کب فرض ہوئی؟
صدقہ فطر ٢ہجری میں واجب کیا گیا تھا زکوۃ کی فرضیت کے بارہ میں اگرچہ علماء کے یہاں اختلافی اقوال ہیں مگر صحیح قول یہ ہے کہ زکوۃ کی فرضیت کا حکم ہجرت سے پہلے مکہ میں نازل ہو گیا تھا مگر اس حکم کا نفاذ مدینہ میں ہجرت کے دوسرے سال رمضان کی پہلی تاریخ کو ہوا ہے گویا زکوۃ یکم رمضان ٢ ہجری میں فرض قرار دی گئی اور اس کا اعلان کیا گیا۔
زکوۃ تمام امتوں پر فرض تھی
اجتماعی طور پر یہ مسئلہ ہے کہ زکوۃ انبیاء کرام پر فرض و واجب نہیں ہے البتہ جس طرح سابقہ تمام امتوں پر نماز فرض تھی اسی طرح امت محمدی سے پہلے ہر امت پر زکوۃ فرض تھی ہاں زکوۃ کی مقدار اور مال کی تحدید میں اختلاف ضرور رہا ہے لیکن یہ بات طے ہے کہ زکوۃ کے بارے میں اسلامی شریعت کے احکام بہت آسان اور سہل ہیں جب کہ سابقہ انبیاء کی شریعتوں میں اتنی آسانی نہیں تھی۔
زکوۃ کی اہمیت اور اس کی تاکید
قرآن مجید میں بتیس جگہ زکوۃ کا ذکر نماز کے ساتھ فرمایا گیا ہے جس سے نہ صرف یہ کہ نماز روزہ اور زکوۃ دونوں کے کمال اتصال کا اظہار ہوتا ہے بلکہ یہ زکوۃ کی فضیلت و تاکید کی دلیل بھی ہے پھر یہ کہ قرآن کریم میں بہت سی جگہ زکوۃ کا علیحدہ بھی ذکر فرمایا گیا ہے اللہ تعالیٰ نے زکوۃ ادا کرنے والوں کو دنیاوی و اخروی اجر و ثواب اور سعادت و نیک بختی کے دل کش و سچے وعدوں سے سرفراز فرمایا ہے اور اس کی ادائیگی سے باز رہنے والوں کو جیسے سخت عذاب کی خبر دی گئی ہے کہ اللہ شاہد اہل ایمان کے قلوب ان کے تصور سے بھی کانپ اٹھتے ہیں کیسے بد بخت ہیں وہ لوگ جو اس اہم فریضہ کی ادائیگی سے باز رہتے ہیں اور ان عذابوں کو برداشت کرنے کے لئے تیار ہو گئے ہیں۔ (العیاذ باللہ)
چونکہ زکوۃ اسلام کا ایک بڑا رکن ہے اور اس کی فرضیت قطعی ہے اس لئے زکوۃ کا انکار کرنے والا کافر اور زکوۃ ادا نہ کرنے والا فاسق اور شدید ترین گنہگار ہوتا ہے بلکہ علماء لکھتے ہیں کہ زکوۃ نہ دینے والا اس قابل ہے کہ اسے قتل کر دیا جائے (محیط السرخسی)
مال پر ایک سال کامل گزر جانے کے بعد صاحب نصاب پر علی الفور زکوۃ واجب ہو جاتی ہے یہاں تک کہ اس کی ادائیگی میں تاخیر گناہ گار بناتی ہے بعض حضرات نے کہا ہے کہ سال پورا ہو جانے پر علی الفور زکوۃ واجب نہیں ہوتی بلکہ علی التراخی واجب ہوتی ہے یہاں تک کہ موت کے وقت گناہ گار ہوتا ہے۔
زکوۃ کن لوگوں پر فرض ہے
ہر اس آزاد عاقل اور بالغ مسلمان پر زکوۃ فرض ہے جو نصاب (یعنی مال کی وہ خاص مقدار جس پر شریعت نے زکوۃ فرض کی ہے) کا مالک ہو اور مال کامل ایک سال تک اس کی ملکیت میں رہا ہو نیز وہ مال دین یعنی قرض اور ضرورت اصلیت سے فارغ ہو اور نامی (یعنی بڑھنے والا ہو) خواہ حقیقۃ خواہ تقدیراً اسی طرح مال میں اس کی ملکیت پوری طرح اور کامل ہو۔
کافر، غلام دیوانے اور نابالغ لڑکے پر زکوۃ واجب نہیں ہے اور نہ اس مالک نصاب پر زکوۃ واجب ہے جس کے نصاب پر پورا ایک سال نہ گزرا ہو، ہاں اگر کوئی شخص سال کی ابتدائی اور آخری حصوں میں مالک نصاب رہے اور درمیان مالک نصاب نہ رہے تو اسے زکوۃ ادا کرنی ہو گی کیونکہ یہ بھی پورے ایک سال ہی کے حکم میں ہو گا۔
قرض دار پر اس کے بقدر فرض مال میں زکوۃ فرض نہیں ہاں جو مال قرض سے زائد ہو اور وہ حد نصاب کو پہنچتا ہو تو اس میں زکوۃ واجب ہو گئی لیکن یہ بات ملحوظ رہے کہ وہ قرض زکوۃ کے لئے مانع وجوب ہے جس کا مطالبہ بندوں کی طرف سے ہو، چنانچہ نذر، کفارات فطرہ اور ان جیسے دوسرے مطالبات جن کا تعلق صرف اللہ جل شانہ کی ذات سے ہے اور کسی بندے کو ان کا مطالبہ کرنے کا حق نہیں پہنچتا زکوۃ کے لئے مانع وجوب نہیں ہیں۔ ہاں ایسے قرض جن کا تعلق ہے تو اللہ تعالیٰ ہی سے مگر ان کے مطالبہ وصول کرنے کا حق بندوں کو پہنچتا ہے جیسے زکوۃ عشر، خراج وغیرہ کہ امام وقت اللہ تعالیٰ کی جانب سے ان کا مطالبہ کر سکتا ہے تو یہ بھی زکوۃ کے لئے مانع وجوب ہیں مگر امام وقت اور حاکم مال ظاہر میں مطالبہ کر سکتا ہے مثلاً مویشی وہ مال تجارت جو شہر میں لایا جائے یا شہر سے باہر لے جایا جائے اور نقدی لیکن وہ مال جس کی تجارت صرف شہر کے اندر اندر ہی محدود ہو اس میں حاکم کا مطالبہ اور اگر بیوی مہر کا تقاضا کرتی ہو تو اس کے مہر کے بقدر مال میں زکوۃ واجب نہیں ہو گی۔
بحرالرائق میں ہے کہ معتمد مسلک یہ ہے کہ فرض زکوۃ اور صدقہ فطر کے لئے مانع وجوب ہے نیز مطلقاً قرض مانع ہے خواہ معجل ہو یا موجل، اگرچہ بیوی کا مہر موجل ہی کیوں نہ ہو جس کی مدت تاجیل طلاق یا موت پر ختم ہو جاتی ہے لیکن بعض حضرات فرماتے ہیں کہ مہر موجل زکوۃ کے لئے مانع وجوب نہیں ہے کیونکہ عام طور پر اس کا مطالبہ نہیں ہوا کرتا بخلاف مہر معجل کے کہ اس کا مطالبہ ہوتا ہے مگر بعض علماء نے اس بارہ میں یہ لکھا ہے کہ اگر خاوند ادائیگی مہر کا ارادہ رکھتا ہو تو مہر موجل زکوۃ کے لئے مانع وجوب ہے ورنہ نہیں کیونکہ اس کا شمار قرض میں نہیں ہوتا۔
حضرت امام اعظم ابوحنیفہ صاحبین یعنی حضرت امام ابویوسف اور حضرت امام محمد رحمہم اللہ کے درمیان اس بارہ میں اختلاف ہے کہ اگر کسی عورت کا خاوند تونگر یعنی مالدار ہو تو وہ اپنے مہر کی وجہ سے (کہ جو اس کے خاوند کے ذمہ باقی ہے) غنیہ سمجھی جائے گی یا نہیں؟ صاحبین کا مسلک تو یہ ہے کہ ایسی عورت غنیہ معتبر ہو گی یعنی مستحق زکوۃ نہیں ہو گی حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا آخری قول یہ ہے کہ وہ غنیہ معتبر نہیں ہو گی، لیکن یہ بات ذہن نشین رہے کہ یہ اختلاف صرف مہر معجل کے بارہ میں ہے مہر موجل کی صورت میں تینوں حضرات کا متفقہ مسلک یہ ہے کہ ایسی عورت غنیہ معتبر نہیں ہو گی۔
ضرورت اصلیہ کا مطلب
ضرورت اصلیہ سے مراد یہ چیزیں ہیں رہائش کا مکان، پہننے کے کپڑے خانہ داری کے اسباب سواری کی چیزیں مثلاً گھوڑا گاڑی موٹر سائیکل وغیرہ خدمت کے غلام استعمال کے ہتھیار، اہل علم کے لئے ان کی کتابیں کاریگر کے واسطے اس کے پیشہ کے اوزار وغیرہ، لہٰذا مثال کے طور پر اگر کسی شخص نے کوئی مکان تجارت کی نیت سے لیا اور وہ مکان اس کی رہائش سے فارغ بھی ہو تو اس میں زکوۃ واجب ہو گی اسی طرح دوسری چیزوں کو بھی قیاس کیا جا سکتا ہے اگر مکان و غلام وغیرہ اپنی ضرورت و حاجت سے فارغ ہوں اور ان کی تجارت کی نیت نہ ہو تو پھر ان میں زکوۃ واجب نہیں ہو گی۔
کامل ملکیت
ابھی پہلے زکوۃ واجب ہونے کی شرائط بیان کرتے ہوئے یہ شرط بھی بیان کی گئی تھی کہ مال میں اس کی ملکیت پوری طرح اور کامل ہو۔ لہٰذا اس کامل ملکیت سے مراد یہ ہے کہ مال کا اصل مالک بھی ہو اور وہ مال اس کے قبضہ و قدرت میں بھی ہو جو مالک ملک اور قبضہ میں نہ ہو یا ملک میں ہو قبضے میں نہ ہو یا قبضہ میں ہو تو اس پر زکوۃ فرض نہیں۔ لہٰذا مکاتب کے کے کمائے ہوئے مال میں زکوۃ نہیں نہ خود مکاتب پر نہ اس کے مولیٰ پر اس لئے کہ وہ مال مکاتب کی ملکیت میں نہیں گو اس کے قبضہ میں ہے اسی طرح مولیٰ کے قبضہ میں نہیں ہے گو ملک میں ہے۔
اسی طرح ضمار میں بھی زکوۃ واجب نہیں ہوتی کیونکہ وہ مال ملکیت میں تو ہوتا ہے مگر قبضہ میں نہیں ہوتا۔ مال ضمار اس کو کہتے ہیں جو اپنی رسائی سے باہر ہو اس کی کئی قسمیں ہوتی ہیں (١) وہ مال جو جاتا رہے یعنی گم ہو جائے (٢) وہ مال جو جنگل میں دفن کر دیا گیا ہو مگر وہ جگہ کہ جہاں اسے دفن کیا گیا تھا بھول جائے (٣) وہ مال جو دریا میں غرق ہو گیا، (٤) وہ مال جسے کوئی شخص زبردستی چھین لے مگر اس کا کوئی گواہ نہ ہو (٥) وہ مال جو کسی ظالم نے ڈندے کے طور لے لیا۔ (٦) وہ مال جو کسی نے بطور قرض لیا اور بعد میں قرضدار قرض کا منکر ہو گیا اور کوئی تمسک یا گواہی اس کی نہ ہو۔
پس مال ضمار کی یہ دو قسمیں ہیں کہ اگر ان میں سے کوئی مال ہاتھ لگ جائے تو اس مال میں پچھلے دنوں کی زکوۃ واجب نہیں ہو گی ہاں اگر وہ مال ہاتھ لگ جائے جو جنگل میں بلکہ گھر میں دفن کر کے اس کی جگہ بھول گیا تھا تو جب بھی وہ مال نکلے گا اس میں پچھلے دنوں کی زکوۃ واجب ہو گی۔ اسی طرح قرض کے اس مال میں بھی زکوۃ واجب ہو گی جس سے قرض دار انکار نہ کرتا ہو خواہ وہ قرضدار تونگر ہو یا مفلس اور یا اگر انکار کرتا ہو تو کوئی تمسک یا گواہی ہو یا خود قاضی یہ جانتا ہو کہ اس نے اتنا مال قرض لیا تھا لیکن اس مال میں زکوۃ اس تفصیل کے ساتھ واجب ہو گی کہ۔
(١) اگر وہ قرض مال تجارت کے بدلہ میں ہو تو جب نصاب کا پانچواں حصہ وصول ہو جائے تو پچھلے دنوں زکوۃ ادا کرے (٢) اگ وہ قرض مال تجارت کے بدلہ میں نہ ہو مثلاً گھر کے پہننے کے کپڑے فروخت کئے یا خدمت کا غلام فروخت کیا یا رہائش کا مکان فروخت کیا اور ان کی قیمت خریدنے والے کے ذمہ قرض رہی تو اس میں پچھلے دنوں کی زکوۃ اسی وقت واجب ہو گی جب کہ بقدر نصاب وصول ہو جائے (٣) اگر قرض اس چیز کے بدلہ میں ہو جو مال نہیں ہے جیسے مہر، وصیت اور بدل خلع وغیرہ تو اس میں زکوۃ اسی وقت واجب ہو گی جب کہ بقدر نصاب وصول ہو جائے اور اس پر پورا ایک سال گزر جائے یعنی اس میں پچھلے دنوں کی زکوۃ واجب نہیں ہو گی بلکہ صرف اسی سال کی زکوۃ واجب ہو گی جس میں کہ وہ مال پر قابض رہا لیکن یہ حکم اسی شخص کے بارہ میں ہے جو پہلے سے صاحب نصاب نہ ہو اگر پہلے سے صاحب نصاب ہو گا تو یہ مال اس کے حق میں بمنزلہ مال مستفاد کے ہو گا، پہلے مال کے ساتھ اس مال کی بھی زکوۃ واجب ہو گی اور ایک سال کا گزرنا شرط نہیں ہو گا۔
ادائیگی زکوۃ کے لئے نیت شرط ہے
ادائیگی زکوۃ کے لئے یہ شرط ہے کہ زکوۃ دینے والا زکوۃ دیتے وقت نیت کرے یعنی دل میں یہ ارادہ کرے کہ " میرے اوپر جس قدر مال کا دینا فرض تھا میں محض اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے دیتا ہوں" یا جس وقت اپنے مال میں سے زکوۃ کا حصہ نکالے اسی وقت زکوۃ کی نیت کرے کہ میں اس قدر جو زکوۃ دینے کے لئے ہے نکالتا ہوں۔
اگر کوئی شخص اپنا تمام مال اللہ کی راہ میں خیرات کر دے اور زکوۃ کی نیت نہ کرے تو اس کے ذمہ زکوۃ ساقط ہو جاتی ہے یعنی اس پر زکوۃ کا مطالبہ باقی نہیں رہتا بشرطیکہ اس نے وہ مال کسی اور واجب کی نیت سے نہ دیا ہو وہاں اگر کسی شخص نے پورا مال تو نہیں بلکہ تھوڑا سا بغیر نیت زکوۃ اللہ کی راہ میں خیرات کر دیا تو حضرت امام محمد رحمہ اللہ کے نزدیک اس مال کی زکوۃ ادا ہو جائے گی مگر حضرت امام ابویوسف کے ہاں اس مال کی زکوۃ ادا نہیں ہو گی حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا بھی یہی قول منقول ہے اور اسی قول پر فتویٰ بھی ہے۔
زکوۃ کو ساقط کرنے کے لئے حیلہ کرنا مکروہ ہے یعنی اگر کوئی شخص یہ چاہے کہ مال زکوۃ کی ادائیگی سے بچ جائے اور اس کی صورت یہ کرے کہ جب سال پورا ہونے کو ہو تو کچھ دن پہلے اپنا مال دوسرے کو ہبہ کر کے اسے قابض کر دے اور اس طرح زکوۃ کی ادائیگی سے بچ جائے اگرچہ اس صورت سے زکوۃ تو ساقط ہو جاتی ہے مگر یہ کوئی اچھا فعل نہیں ہے۔
اگر کسی شخص نے کوئی غلام تجارت کے لئے خریدا مگر بعد میں اس سے خدمت لینے کی نیت ہو گئی تو وہ غلام تجارت کے لئے نہیں رہے گا بلکہ خدمت ہی کے لئے ہو جائے گا اس میں زکوۃ واجب نہیں ہو گی۔ اسی طرح اگر کسی شخص نے کوئی غلام خدمت کی نیت سے خریدا پھر بعد میں اس نے تجارت کی نیت کر لی تو وہ غلام اس وقت تک تجارت کے حکم میں داخل نہیں ہو گا جب تک کہ وہ شخص اسے فروخت نہ کرے۔ فراختگی کے بعد اس کی قیمت میں زکوۃ واجب ہو جائے گی۔
نصاب کی تعریف
نصاب زکوۃ مال کی اس خاص مقدار کو کہتے ہیں جس پر شریعت نے زکوۃ فرض کی ہے اور جس مقدار سے کم مال میں زکوۃ فرض نہیں ہوتی مثلاً اونٹ کے لئے پانچ اور پچیس وغیرہ کا عدد، بکری کے لئے چالیس اور ایک اکیس وغیرہ کا عدد اور چاندی کے لئے دو سو درہم اور سونے کے لئے بیس مثقال ۔
نصاب کی قسمیں
نصاب کی دو قسمیں ہیں۔ نامی یعنی بڑھنے والا مال اور غیر نامی یعنی نہ بڑھنے والا مال پھر نامی کی دو قسمیں ہیں حقیقی اور تقدیری حقیق کا اطلاق تو تجارت کے مال اور جانور پر ہوتا ہے کیونکہ تجارت کا مال نفع سے بڑھتا ہے اور جانور بچوں کی پیدائش سے بڑھتے ہیں۔ تقدیری کا اطلاق سونے چاندی پر ہوتا ہے کہ یہ چیزیں بظاہر تو نہیں بڑھتیں لیکن بڑھنے کی صلاحیت رکھتی ہیں نصاب غیر نامی کا اطلاق مکانات اور خانہ داری کے ان اسباب پر ہوتا ہے جو ضرورت اصلیہ کے علاوہ ہوں۔
نصابی اور غیر نصابی میں فرق
نصاب نامی اور غیر نامی میں فرق یہ ہے کہ نصاب نامی کے مالک پر تو زکوۃ فرض ہوتی ہے نیز اس کے لئے دوسرے زکوۃ، نذر اور صدقات واجبہ کا مال لینا درست نہیں ہوتا اور اس کے لئے صدقہ فطر دینا اور قربانی کرنا واجب ہوتا ہے۔ نصاب غیر نامی کے مالک پر زکوۃ فرض نہیں ہوتی مگر اس کے لئے بھی زکوۃ نذر اور صدقہ واجبہ کا مال لینا درست نہیں ہوتا نیز اس پر بھی صدقہ فطر دینا اور قربانی کرنا واجب ہوتا ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں