میت کا وہی لحاظ ہونا چاہئے جو اس کی زندگی میں ہوتا تھا
راوی:
وعن عائشة قالت : كنت أدخل بيتي الذي فيه رسول الله صلى الله عليه و سلم وإني واضع ثوبي وأقول : إنما هو زوجي وأبي فلما دفن عمر رضي الله عنه معهم فوالله ما دخلته إلا وأنا مشدودة علي ثيابي حياء من عمر . رواه أحمد
حضرت عائشہ صدیقہ ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ جب میں اس حجرہ مبارک میں جایا کرتی تھی جس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) مدفون تھے تو میں (اپنے بدن سے) کپڑا (یعنی چادر) اتار کر رکھ دیتی تھی اور (دل میں ) کہا کرتی تھی کہ یہاں میرے خاوند (آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اور میرے باپ (حضرت ابوبکر صدیق ) مدفون ہیں اور یہ دونوں میرے لئے اجنبی نہیں ہیں تو پھر حجاب کیسا؟ مگر جب (اس حجرہ میں ) ان کے ساتھ حضرت عمر فاروق کو دفن کر دیا گیا تو اللہ کی قسم میں اس حجرہ میں جب بھی داخل ہوتی تھی، حضرت عمر سے حیاء کی وجہ سے (کہ وہ اجنبی تھے) اپنے بدن پر کپڑے لپیٹے رکھتی۔ (احمد)
تشریح
یہ حدیث بڑی و ضاحت کے ساتھ اس بات کی دلیل پیش کر رہی ہے کہ زیارت میت و قبور کے وقت وہی لحاظ ہونا چاہئے جو اس کی زندگی میں ہوتا تھا چنانچہ اس بارہ میں ایک صحابی حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ ارشاد منقول ہے کہ : " اگر میں آگ پر چلوں یا تلوار کی تیز دھار پر اپنا پیر رکھ دوں جس کے نتیجہ میں میرا پیر (جل) کٹ جائے تو میرے نزدیک یہ پسندیدہ ہے بہ نسبت اس چیز کے کہ میں کسی شخص کی قبر پر چلوں، اور میرے نزدیک قبروں پر پیشاب کرنے اور بھرے بازار میں لوگوں کی نظروں کے سامنے پیشاب کرنے میں کوئی فرق نہیں ہے"
اسی طرح حضرت ابن ابی الدنیا نے حضرت سلیم بن غفیر کے بارہ میں یہ نقل کیا ہے :
ایک مرتبہ وہ کسی قبرستان سے گزر رہے تھے کہ انہیں پیشاب کی شدید حاجت ہوئی (ان کی کیفیت دیکھ کر) لوگوں نے کہا کہ سواری سے اتر کر یہیں پیشاب کیوں نہیں کر لیتے! انہوں نے فرمایا کہ سبحان اللہ! (کیسی غلط بات کہہ رہے ہو) اللہ کی قسم میں مردوں سے اسی طرح حیاء کرتا ہوں جس طرح زندوں سے حیاء کرتا ہوں۔
الحمدللہ کتاب الصلوۃ اور کتاب الجنائز ختم ہوئی۔
صلی اللہ تعالیٰ علی خیر خلقہ محمد وآلہ وا صحابہ اجمعین ولا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم