مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ میت پر رونے کا بیان ۔ حدیث 233

میت پر رونے کی ممانعت

راوی:

وعن عائشة قالت : لما جاء النبي صلى الله عليه و سلم قتل ابن حارثة وجعفر وابن رواحة جلس يعرف فيه الحزن وأنا أنظر من صائر الباب تعني شق الباب فأتاه رجل فقال : إن نساء جعفر وذكر بكاءهن فأمره أن ينهاهن فذهب ثم أتاه الثانية لم يطعنه فقال : انههن فأتاه الثالثة قال : والله غلبننا يا رسول الله فزعمت أنه قال : " فاحث في أفواههن التراب " . فقلت : أرغم الله أنفك لم تفعل ما أمرك رسول الله صلى الله عليه و سلم ولم تترك رسول الله صلى الله عليه و سلم من العناء

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس زید بن حارثہ، جعفر اور ابن رواحہ کے (غزوہ موتہ میں) شہید کر دئیے جانے کی اطلاع آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ) بیٹھ گئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ پر رنج و غم کے آثار نمایاں تھے اور میں (آپ کی کیفیت) دروازے کے سوراخ سے دیکھے جا رہی تھی کہ اتنے میں ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ جعفر کے گھر کی عورتیں اس طرح کر رہی ہیں یعنی اس نے ان کے رونے کا ذکر کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے حکم فرمایا کہ وہ جا کر انہیں منع کر دے۔ وہ چلا گیا (تھوڑی دیر کے بعد) دوسری مرتبہ واپس آ کر بتایا کہ عورتیں نہیں مان رہی ہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر اس سے فرمایا کہ جا کر منع کر دو۔ وہ چلا گیا اور جا کر منع کیا اور کچھ دیر کے بعد پھر تیسری مرتبہ آیا اور کہا کہ یا رسول اللہ! اللہ کی قسم وہ عورتیں ہم پر غالب آ گئیں یعنی وہ ہمارا کہنا نہیں مان رہی ہیں حضرت عائشہ کا گمان ہے کہ یہ سن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ فرمایا کہ ان کے منہ میں مٹی ڈالو۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں اس شخص سے کہنے لگی کہ اللہ تمہاری ناک خاک آلود کرے تمہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو حکم دیا ہے اس پر عمل کیوں نہیں کیا؟ اور تم رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رنج پہنچانے کا سبب بنے۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
ان کے منہ میں مٹی ڈالو۔ بظاہر معلوم یہ ہوتا ہے کہ یہ اس بات سے کنایہ ہے کہ انہیں اپنے حال پر چھوڑ دو کیونکہ شدید رنج و غم کی وجہ سے جزع و فزع کی حالت میں نصیحت ان پر کار گر نہیں ہو رہی ہے۔
ارغم اللہ سے آخر تک حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تمہیں ذلیل کرے کیونکہ تم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایذاء پہنچائی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رنچ پہنچانے کا سبب بنے اس لئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ سن کر شدید رنج پہنچا کہ وہ عورتیں گناہ کبیرہ میں مبتلا ہیں اور منع کرنے کے باوجود رونے سے باز نہیں آ رہی ہیں اگر تم ڈانٹ ڈپٹ کر اور سختی کے ساتھ ان عورتوں کو اس فعل سے منع کر دیتے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ شدید روحانی اذیت وکوفت نہ وہتی۔

یہ حدیث شیئر کریں