میت کے گھر بھیجا جانے والا کھانا دوسرے لوگ بھی کھا سکتے ہیں یا نہیں
راوی:
اس بارہ میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں کہ وہ کھانا جو میت کے گھر اس کے عزیزوں اور ہمسائیوں کی طرف سے آتا ہے میت کے گھر والوں کے علاوہ دوسرے لوگوں کو کھانا جائز ہے یا نہیں، چنانچہ بعض علماء تو جواز کے قائل ہیں جب کہ بعض حضرات مثلاً ابوالقاسم کا قول یہ ہے کہ اس شخص کے کھا لینے میں کوئی مضائقہ نہیں جو میت کی تجہیز و تکفین میں مشغول ہے۔
نیز علماء لکھتے ہیں کہ جب کسی میت کے گھر کھانا پکا کر بھیجا جائے تو اس موقع پر اس بات کا خیال رکھا جائے کہ میت کے گھر والے کھانا کھا بھی لیں کیونکہ ایسے غمناک ماحول میں کھانے پینے کا کوئی دھیان نہیں رہتا خاص طور پر میت کے گھر والے غم و الم کی وجہ سے کھانا وغیرہ کی خواہش نہیں رکھتے اس لئے مناسب اور بہتر یہ ہے کہ انہیں کہہ سن کر کھانا ضرور کھلا دیا جائے تاکہ غم و الم کی زیادتی اور کھانا نہ کھانے کی وجہ سے ضعف اور کمزوری میں مبتلا نہ ہو جائیں۔
نوحہ کرنے والی عورتوں کے لئے کھانا تیار کرنا تاکہ لوگ جمع ہوں اور کھائیں بدعت و مکروہ ہے بلکہ اس کے بارہ میں حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے تو یہ منقول ہے کہ ہم اسے نیاحت یعنی نوحہ کرنے کی ایک قسم شمار کرتے تھے۔ لہٰذا اس ارشاد سے تو اس چیز کا صریح حرام ہونا معلوم ہوتا ہے۔
امام غزالی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اسی مقصد کے لئے میت کے گھر والوں کی طرف سے تیار کئے گئے کھانے میں شریک ہونا مکروہ ہے۔ ملا علی قاری فرماتے ہیں کہ یہ کراہت اس شکل میں ہے جب کہ وہ کھانا اس مال سے تیار نہ کیا گیا ہو جو یتیم کا ہو یا اس شخص کی ملکیت ہو جو موجود نہ ہو اور اس کی اجازت کے بغیر اس کے مال میں تصرف کیا گیا ہو اور اگر کھانا ایسے مال سے تیار کیا گیا ہو جو یتیم یا غیر موجود شخص کی ملکیت میں ہو تو پھر اس کھانے میں شریک ہونا بغیر کسی اختلافی قول کے حرام ہے۔