تعزیت کے وقت کیا الفاظ کہے جائیں
راوی:
مستحب یہ ہے کہ جب کوئی شخص اہل میت سے تعزیت کرے تو اس سے صبر وتسلی کے اس قسم کے الفاظ کہے " اللہ تعالیٰ مرنے والے کو اپنی مغفرت وبخشش سے نوازے ، اسی کی لغزشوں سے درگزر فرمائے اس پر اپنی رحمت کا سایہ کرے، سانحہ ارتحال کے اس سخت حادثہ پر تم سب کو صبر کی توفیق عطا فرمائے اور تم سب کو اس رنج ومصیبت کے بدلہ میں ثواب عطا فرمائے۔
تعزیت کے لئے بہترین الفاظ وہی ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے تھے کہ :
ان للہ مااخذ ولہ ما اعطی وکل چیز عندہ باجل مسمی
" وہ چیز بھی اللہ ہی کی ملکیت ہے جو اس نے لے لی ہے اور وہ چیز بھی اسی کی ملکیت میں ہے جو اس نے دے رکھی ہے اور اس کے نزدیک ہر چیز کا ایک وقت مقرر ہے"
اگر کوئی غیر مسلم مرجائے اور اس کا قرابتی مسلمان ہو تو اس سے تعزیت اس طرح کی جائے کہ " اللہ تعالیٰ تمہیں بہت زیادہ ثواب عطا فرمائے اور تمہیں بہترین صبر وسکون کی دولت سے نوازے" اور اگر میت مسلمان ہو اور قرابتی غیر مسلمان تو اس سے اس طرح کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ مرنے والے کو بخشش ومغفرت سے نوازے اور تمہیں صبر وسکون عطا فرمائے۔ اور اگر میت اور قرابتی دونوں ہی غیر مسلم ہوں تو تعزیت ان الفاظ کے ذریعہ کی جائے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اس کا بدلہ عطا فرمائے اور تمہارے اہل وعیال میں کمی نہ فرمائے۔
احساس رنج وغم پر تین دن تک اپنے کاروبار چھوڑ کر گر میں بیٹھے رہنا اگرچہ جائز ہے لیکن اس کا ترک اولیٰ ہے۔ اظہار رنج وغم کے لئے مردوں کو سیاہ کپڑا پہننا، رنج ومصیبت کے وقت کپڑے پھاڑڈالنا، چاک گریباں ہوجانا یہ سب چیزیں ممنوع ہیں ہاں اگر عوتیں سیاہ کپڑے پہنیں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
کسی کے انتقال پر حد سے زیادہ جزع وفزع کرنا اور خواہ مخواہ کے ہنگامے کرنا مثلاًمنہ اور ہاتھوں کو کالا کرنا، چاک گریباں ہوجانا، منہ نوچنا، بالوں کو بکھیر ڈالنا، سر پر مٹی ڈالنا، راتوں کو پیٹنا، سینہ کو بی کرنا، اور قبروں پر آگ روشن کرنا یہ سب باتیں زمانہ جاہلیت کی رسوم اور انتہائی غلط وباطل ہیں ان سے بچنا بہت ضروری ہے۔
جس گھر میں میت ہوجائے وہاں کھانا پکا کر بھیجنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے لیکن اسے اس طرح ضروری اور لازم جان لینا کہ خواہ اس کے لئے ادھا قرض ہی کیوں نہ کرنا پڑے انتہائی غلط بات ہے اسی طرح تیسری روز یعنی تیجہ میں لوگوں کو بطور خاص مدعوکرنا اور برادری والوں کو کھانا کھلانا بھی بڑی بری بات اور بے فائدہ چیز ہے۔
یہ بات بطور خاص یاد رکھیے کہ جو لوگ تیجہ کے نام پر جو کچھ خرافات اور اور واہیات حرکتیں کرتے ہیں وہ انتہائی گمراہی میں مبتلا ہیں مثلاً موت کے تیسرے دن اس طرح انتظامات کئے جاتے ہیں کہ شادی بیاہ میں بھی کیا انتظامات ہوتے ہوں گے لوگوں کو مدعو کیا جاتا ہے برادری والے جمع ہوتے ہیں فرش بچھتے ہیں، خیمے کھڑے کئے جاتے ہیں خوشبوئیں بانٹی جاتی ہیں یہ سب باتیں بدعت اور انتہائی گمراہ کن ہیں ان واہیات اور خرافات سے اجتناب ضروری ہے۔
نصاب میں لکھا ہے کہ جن جگہوں پر یہ رسم جاری ہے کہ مرد موت کے تیسرے دن خوشبو لگاتے ہیں وہ عورتوں کے ساتھ مشابہت میں مبتلا ہیں کیونکہ عورتیں تیسرے روز سوگ ختم کرنے کے لئے خوشبو لگاتی ہیں لہٰذا اس سے بھی پرہیز کرنا چاہئے لیکن یہ ممانعت خوشبولگانے کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اس لئے ہے کہ اس طرح اس وقت عورتوں کے ساتھ مشابہت ہوتی ہے اور شریعت نے عورتوں کی مشابہت اختیار کرنے سے منع کیا ہے۔
آداب تعزیت یہ ہیں کہ " جب کوئی شخص میت کے گھر تعزیت کے لئے جائے تو وہاں اہل خانہ کو سلام کرے، مصافحہ کرے ان کے ساتھ انتہائی تواضع اور نرمی کے ساتھ بات چیت کرے، بے فائدہ اور زیادہ گفتگو نہ کرے بلکہ صرف تسلی اور اطمینان اور صبروسکون کے الفاظ کہے اور ہنسنے مسکرانے سے پرہیز کرے۔