مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ مردہ کو دفن کرنے کا بیان ۔ حدیث 194

علامت کے لئے قبر پر کوئی پتھر رکھ دینا جائز ہے

راوی:

وعن المطلب بن أبي وداعة قال : لما مات عثمان ابن مظعون أخرج بجنازته فدفن أمر النبي صلى الله عليه و سلم رجلا أن يأتيه بحجر فلم يستطع حملها فقام إليه رسول الله صلى الله عليه و سلم وحسر عن ذراعيه . قال المطلب : قال الذي يخبرني عن رسول الله صلى الله عليه و سلم : كأني أنظر إلى بياض ذراعي رسول الله صلى الله عليه و سلم حين حسر عنهما ثم حملها فوضعها عند رأسه وقال : " اعلم بها قبر أخي وأدفن إليه من مات من أهلي " . رواه أبو داود

اور حضرت مطلب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن ابووداعہ فرماتے ہیں کہ حضرت عثمان بن مظعون کا انتقال ہوا تو ان کا جنازہ (باہر نکالا گیا اور دفن کیا گیا جب تدفین سے فراغت ہوئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک شخص کو حکم دیا کہ ایک بڑا پتھر لائے تاکہ اسے قبر پر علامت کے لئے رکھ دیا جائے اس شخص سے پتھر نہ اٹھ سکا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے اٹھانے کے لئے خود کھڑے ہوئے اور اپنے دونوں ہاتھوں کی آستینیں چڑھائیں۔ حدیث کے راوی حضرت مطلب فرماتے ہیں کہ جس شخص نے مجھ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ حدیث بیان کی وہ کہتے تھے کہ گویا اس وقت بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک ہاتھوں کی سفیدی میری نظروں میں گھوم رہی ہے جب کہ آپ نے اسے کھولا تھا، بہرحال آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ پتھر اٹھا لیا اور اسے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قبر کے سرہانے رکھ دیا اور فرمایا کہ میں نے اس کے ذریعہ اپنے بھائی کی قبر پر علامت کر دی ہے اب میرے گھر والوں میں سے جس کا انتقال ہو گا میں اسے اس کے پاس دفن کر دوں گا۔

تشریح
حضرت مطلب بن ابی وداوعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی اور فتح مکہ کے دن مشرف باسلام ہوئے تھے انہوں نے اس روایت کو ایک دوسرے صحابی سے اس لئے نقل کیا ہے کہ یہ خود اس موقع پر موجود نہ تھے۔
حضرت عثمان بن مظعون آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دودھ شریک بھائی تھے انہوں نے بالکل ابتدائی زمانہ ہی میں اسلام قبول کر لیا تھا چنانچہ ان سے پہلے صرف تیرہ آدمی اسلام لا چکے تھے، غزوہ بدر میں شریک ہوئے تھے، مدینہ میں مہاجرین میں سے سب سے پہلے انہی کا انتقال ہوا تھا ان کی قبر کے قریب سب سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صاحبزادے حضرت ابراہیم دفن کئے گئے تھے۔
ازہار میں لکھا ہے کہ اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ قبر پر بطور علامت و نشانی کوئی پتھر وغیرہ رکھ دینا مستحب ہے تاکہ قبر پہچانی جا سکے نیز اہل خاندان اور اقربا کو ایک جگہ دفن کرنا بھی مستحب ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں