قبر پر مٹی ڈالنا اور پانی چھڑکنا سنت ہے
راوی:
وعن جعفر بن محمد عن أبيه مرسلا أن النبي صلى الله عليه و سلم حثا على الميت ثلاث حثيات بيديه جميعا وأنه رش على قبر ابنه إبراهيم ووضع عليه حصباء . رواه في شرح السنة وروى الشافعي من قوله : " رش "
حضرت امام جعفر صادق بن محمد اپنے والد (حضرت امام باقر) سے بطریق ارسال نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے صاحبزادے حضرت ابراہیم کی قبر کے اوپر پانی چھڑکا اور علامت کے لئے قبر پر سنگریزے رکھے۔ شرح السنۃ اور حضرت امام شافعی نے اس حدیث کو " رش' پانی چھڑکا) سے آخر تک) روایت کیا ہے۔
تشریح
امام احمد نے اسناد ضعیف کے ساتھ نقل کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قبر میں مٹی اس طرح ڈالتے تھے کہ جب پہلی مٹھی بھر کر مٹی ڈالتے تو پڑھتے منہا خلقناکم اور جب دوسری مٹھی بھر کر ڈالتے تو پڑھتے وفیہا نعیدکم اور اسی طرح جب تیسری مٹھی ڈالتے تو یہ پڑھتے ومنہا نخرجکم۔
حضرت ابن مالک فرماتے ہیں کہ جو لوگ جنازہ کے ہمراہ قبر پر جائیں ان کے لئے سنت ہے کہ جب لحد یا شق بند کر دی جائے تو وہ مٹھی بھر کر مٹی قبر میں ڈالیں اسی طرح قبر جب بھر جائے اور اوپر سے مٹی برابر کر دی جائے تو قبر کے اوپر پانی چھڑکنا سنت ہے۔
ایک حکایت
منقول ہے کہ ایک شخص کا انتقال ہوا تو اسے کسی نے خواب میں دیکھا اور پوچھا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا؟ اس نے کہا کہ جب میری نیکیاں اور برائیاں وزن کی گئیں تو برائیاں نیکیوں سے بڑھ گئیں اچانک ایک تھیلی نیکیوں کے پلڑے میں آ کر گری جس کی وجہ سے نیکیوں کا پلڑا بھاری ہو گیا، میں نے جب تھیلی کھولی تو کیا دیکھتا ہوں کہ اس میں ایک مٹھی مٹی تھی جو میں نے ایک مسلمان کی قبر میں ڈالی تھی ( اس طرح میری یہ نیکی کام آ گئی)