مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ جنازہ کے ساتھ چلنے اور نماز جنازہ کا بیان ۔ حدیث 148

زبان خلق نقارہ خدا

راوی:

وعن أنس قال : مروا بجنازة فأثنوا عليها خيرا . فقال النبي صلى الله عليه و سلم : " وجبت " ثم مروا بأخرى فأثنوا عليها شرا . فقال : " وجبت " فقال عمر : ما وجبت ؟ فقال : " هذا أثنيتم عليه خيرا فوجبت له الجنة وهذا أثنيتم عليه شرا فوجبت له النار أنتم شهداء الله في الأرض " . وفي رواية : " المؤمنون شهداء الله في الأرض "

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا ایک جنازہ پر گزر ہوا تو اس کی تعریف کرنے لگے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کی زبان میت کی تعریف سن کر فرمایا کہ واجب ہو گئی ۔ اس طرح صحابہ کا ایک دوسرے جنازہ پر گزر ہوا تو اس کی برائی بیان کرنے لگے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کی زبان سے میت کی برائی سن کر فرمایا کہ واجب ہو گئی ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا کہ کیا چیز واجب ہو گئی؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص کی تم نے تعریف بیان کی اس کے لئے جنت واجب ہو گئی اور اب جس شخص کی تم برائی بیان کر رہے ہو اس کے لئے دوزخ واجب ہو گئی اور (پھر فرمایا کہ) تم زمین پر اللہ تعالیٰ کے گواہ ہو۔ (بخاری و مسلم) ایک اور روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مومن اللہ تعالیٰ کے گواہ ہیں۔

تشریح
جنت واجب ہو گئی، کا مطلب یہ ہے کہ تم جس شخص کی تعریف بیان کر رہے ہو اگر اس کی وہ تعریف صحیح اور سچ ہے یا یہ کہ اس کی موت اسی خیر و بھلائی کی حالت میں ہوئی ہے جیسے تم بیان کر رہے ہو تو اس کے لئے جنت کی سعادت ثابت ہو گئی ۔ اسی طرح" دوزخ واجب ہو گئی۔ کا مطلب بھی یہی ہے کہ جس شخص کی تم برائی بیان کر رہے ہو۔ اگر اس کی وہ برائی صحیح اور واقعی ہے یا یہ کہ اس کی موت اسی برائی کی حالت میں ہوئی ہے جسے تم بیان کر رہے ہو تو اس کے لئے دوزخ کی سزا ثابت ہو گئی۔
مظہر کا قول ہے کہ یہ حکم عام طور پر ہر شخص کے لئے نہیں ہے کہ جس کسی بھی شخص کے بارہ میں لوگ خیر و بھلائی کا ذکر کریں تو اس کے لئے جنت لازم ہی ہو جائے بلکہ جس شخص کے بارہ میں لوگ اچھے اور نیک خیالات کا اظہار کریں اور اس کی تعریف بیان کریں تو اس لے لئے جنت کی امید کی جا سکتی ہے۔ اسی طرح جس شخص کے بارہ میں لوگ برے خیالات کا اظہار کریں اور زبان خلق اس کی برائی میں مصروف ہو تو اس کے بارہ میں یہ خوف ہو سکتا ہے کہ وہ دوزخ میں جائے اب رہی یہ بات کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلے شخص کے لئے جنت اور دوسرے شخص کے لئے دوزخ کو واجب کیوں کہا؟ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پہلے شخص کے جنتی ہونے اور دوسرے شخص کے دوزخی ہونے کے فیصلہ سے مطلع کر دیا تھا۔
زین عرف فرماتے ہیں کہ کسی شخص کا خیر و بھلائی اور شر و برائی کے ساتھ ذکر کرنا اس کے لئے جنت و دوزخ کو واجب نہیں کرتا بلکہ درحقیقت کسی شخص کے بارہ میں زبان خلق کا بھلا یا برا تاثر صرف اس کے جنتی یا دوزخی ہونے کی علامت ہوتا ہے۔
پھر یہ کہ اس تعریف اور اس برائی کا اعتبار ہو گا جس کی نیک بخت لوگوں اور متقی و پرہیز گار بندوں کی زبانیں گواہی دیں کیونکہ اللہ کے نیک بخت و متقی بندوں کی زبان اس کے قلب سلیم کی ہمنوا ہوتی ہے لہٰذا وہ جس شخص کی تعریف کریں گے یا جس شخص کی برائی کریں گے اس میں کسی خارجی دباؤ یا نفس کے کسی غلط تقاضا کا قطعی دخل نہیں ہو گا بلکہ ان کے زبانی اثرات اور حقیقت کے صالح قلب کے صحیح فیصلہ کے غماز ہوں گے چنانچہ کسی شخص کے بارہ میں ان کے تعریف اس شخص کے جنتی ہونے کی علامت ہو گی اور کسی شخص کے بارہ میں ان کی بیان کی ہوئی برائی اس شخص کے دوزخی ہونے کی علامت ہو گی۔
اس سے یہ بات ظاہر ہو گئی کہ اگر کوئی فاسق اور دنیا دار شخص نفس کے غلط تقاضا اور اپنے ذاتی اغراض و مقاصد کی خاطر کسی برے اور بدکار شخص کی تعریف بیان کرے اور اس کے بارہ میں اچھے تاثرات کا اظہار کرے یا اسی طرح کسی نیک بخت اور مرد مومن کی برائی بیان کرے تو نہ اس کی تعریف کا اعتبار ہو گا اور نہ اس کی بیان کی ہوئی برائی کی کوئی حیثیت ہو گی بلکہ اس کے بارہ میں یہ کہا جائے گا کہ یہ اپنے نفس کا غلام اور ضمیر فروش ہے جو محض ذاتی اغراض و مقاصد کی خاطر اس شخص کو تو اچھا کہہ رہا ہے جس کی برائی اور بدکاری عیاں تھی اور اس نیک بخت کو برا کہہ رہا ہے جس کی نیک بختی مثالی حیثیت رکھتی تھی۔
انتم شہداء اللہ تم (اللہ تعالیٰ کے گواہ ہو) آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشاد اکثر کے اعتبار سے ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جو شخص جیسا ہے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی زبان سے اسے ویسا ہی کہلواتا ہے یعنی اگر کوئی شخص نیک ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اپنے بندوں کی زبان سے نیک ہی کہلواتا ہے ۔ اور کوئی شخص بدکار ہوتا ہے تو اللہ اپنے بندوں کی زبان سے اس کی بدکاری ہی کی شہادت دلواتا ہے چنانچہ بندہ کی یہ شہادت درحقیقت اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ وہ جس کے بارہ میں جس تاثر کا اظہار کر رہے ہیں وہ واقعۃ ایسا ہی ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں