مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ جنازہ کے ساتھ چلنے اور نماز جنازہ کا بیان ۔ حدیث 140

نماز جنازہ میں سورت فاتحہ پڑھنے کا مسئلہ

راوی:

وعن طلحة بن عبد الله بن عوف قال : صليت خلف ابن عباس على جنازة فقرأ فاتحة الكتاب فقال : لتعلموا أنها سنة . رواه البخاري

حضرت طلحہ بن عبداللہ بن عوف (طابعی) کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے پیچھے جنازہ کی نماز پڑھی چنانچہ انہوں نے (تکبیر اولیٰ کے بعد) سورت فاتحہ پڑھی اور فرمایا کہ میں نے سورت فاتحہ اس لئے پڑھی ہے تاکہ تم لوگ جان لو کہ یہ سنت ہے۔ (بخاری)

تشریح
حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ سنت ہے۔ سے مراد یہ ہے کہ نماز جنازہ میں سورت فاتحہ پڑھنا واجب نہیں ہے۔ یعنی اگر تکبیر اولیٰ کے بعد سبحانک اللہم الخ کے بجائے سورت فاتحہ پڑھی جائے تو یہ سورت فاتحہ سنت (یعنی سبحانک اللہم الخ پڑھنے) کے قائم مقام ہو جاتی ہے۔
محقق امام ابن ہمام فرماتے ہیں کہ نماز جنازہ میں سورت فاتحہ کی قرأت نہ کی جائے ہاں بہ نیت ثنا سورت فاتحہ پڑھی جا سکتی ہے چنانچہ نماز جنازہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سورت فاتحہ پڑھنا ثابت نہیں ہے۔ نیز موطا میں منقول ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نماز جنازہ میں سورت فاتحہ نہیں پڑھتے تھے ۔
چونکہ حضرت امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک نماز جنازہ میں سورت فاتحہ پڑھنا واجب ہے اس لئے وہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس کے الفاظ انہا سنۃ (یہ سنت ہے) میں سنت سے مراد ہے کہ " سورت فاتحہ پڑھنا دین کا ایک مشروع طریقہ ہے" لہٰذا ان کی اس تاویل سے وجوب کی نفی نہیں ہوتی۔

یہ حدیث شیئر کریں