آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہجرت کے لئے مدینہ کا تعین
راوی:
وعن جرير بن عبد الله عن النبي صلى الله عليه و سلم قال : " إن الله أوحى إلي : أي هؤلاء الثلاثة نزلت فهي دار هجرتك المدينة أو البحرين أو قنسرين " . رواه الترمذي
حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا " اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی مجھے مطلع فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان تین شہروں (١) مدینہ (٢) بحرین (٣) قنسرین۔ میں سے جس شہر میں (رہنے کے لئے ) اتریں گے وہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے دارالہجرت (ہجرت کا مکان ) ہوگا۔ (ترمذی)
تشریح
" بحرین" موجودہ جغرافیائی نقشہ کے مطابق ان متعدد جزیروں کے مجموعہ کا نام ہے جو خلیج غربی کے جنوب مغربی گوشے میں واقع ہیں، ان جزیروں میں سب سے بڑا جزیرہ ، جزیرہ منامہ ہے جس کا دوسرا نام بحرین بھی ہے اسی جزیرہ کے نام پر پورے ملک کو بحرین کہتے ہیں ۔ لیکن حدیث شریف اور تاریخ کی کتابوں میں " بحرین" کا لفظ اس علاقہ کے متعلق آیا ہے جو جزیرہ العرب کے مشرقی ساحل پر خلیج بصرہ سے قطر اور عمان تک پھیلا ہوا ہے اور موجودہ بحرین کے مغرب میں واقع ہے۔ اس علاقہ کو اب " احساء" کہا جاتا ہے، لہٰذا یہاں حدیث میں بھی " بحرین" سے مراد وہی علاقہ ہے جس کا نام اب " احساء" ہے۔
" قنسرین " ملک شام کے ایک شہر کا نام ہے ! بہرکیف آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اختیار دیا تھا کہ ان تین شہروں میں جس شہر کے بارہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خواہش ہو مکہ سے ہجرت کر کے وہاں چلے جائیں اور اسی شہر کو اپنا مسکن قرار دیجئے۔ لیکن تاریخ مدینہ میں لکھا ہے کہ اگرچہ شروع میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان تین شہروں میں سے کسی بھی ایک شہر میں رہنے کا اختیار دیا گیا تھا مگر آخر میں مدینہ ہی کو متعین کر دیا گیا تھا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ سے ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لے آئے۔