مدینہ میں مرنے کی سعادت
راوی:
وعن ابن عمر قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " من استطاع أن يموت بالمدية فليمت لها فإني أشفع لمن يموت بها " . رواه أحمد والترمذي وقال : هذا حديث حسن صحيح غريب إسنادا
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ جو شخص مدینہ میں مر سکتا ہو اسے مدینہ ہی میں مرنا چاہئے کیونکہ جو شخص مدینہ میں مرے گا میں اس کی شفاعت کروں گا۔ (احمد، ترمذی)
امام ترمذی کہتے ہیں کہ یہ حدیث سند کے اعتبار سے حسن صحیح غریب ہے۔
تشریح
حدیث کے پہلے جزو کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص اس بات پر قادر ہو کہ مدینہ میں اپنی زندگی کے آخری لمحات تک رہ سکے، تو اسے چاہئے کہ وہ مدینہ ہی میں رہے تاآنکہ اس کی موت اسی مقدس شہر میں واقع ہو اور میں اس کی شفاعت کروں بایں طور کہ اگر وہ گنہگار ہو گا تو میں اسے بخشواؤں گا اور اگر نیکوکار ہو گا تو اس کے درجات بلند کراؤں گا ۔
واضح رہے کہ یہاں شفاعت سے مراد وہ خاص شفاعت ہے جو صرف مدینہ میں رہنے والوں ہی کو حاصل ہو گی اور کسی دوسرے کو نصیب نہ ہو گی ، البتہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت عام ہر مسلمان کے لئے ہو گی۔ لہٰذا افضل یہ ہے کہ جس کی عمر زیادہ ہو جائے یا کشف وغیرہ کے ذریعہ اسے معلوم ہو جائے کہ اس کی موت کا وقت قریب آ گیا ہے تو وہ مدینہ منورہ میں جا رہے تاکہ وہاں مرنے کی وجہ سے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت خاص کی اس سعادت عظیم کا حق دار ہو جائے، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دعا کیا خوب ہے۔ اللہم ارزقنی شہادۃ فی سبیلک واجعل موتی ببلدرسولک۔ اے اللہ! مجھی اپنی راہ میں شہادت نصیب کر اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شہر میں مجھے موت دے۔
دعا ہے کہ رب کریم ہم جیسے بے رز و بے پر کو بھی یہ دولت نصیب کرے۔ آمین