مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ حرم مدینہ کا بیان ۔ حدیث 1299

وج میں شکار وغیرہ کی ممانعت

راوی:

وعن الزبير قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " إن صيد وج وعضاهه حرم محرم لله " . رواه أبو داود وقال محيى السنة : " وج " ذكروا أنها من ناحية الطائف وقال الخطابي : " إنه " بدل " إنها "

حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا " وج کا شکار اور اس کے خاردار درخت حرام ہیں جو اللہ تعالیٰ کے لئے (یعنی اللہ تعالیٰ بموجب) حرام کئے گئے (یا یہ کہ اللہ تعالیٰ کے محبوب بندوں یعنی غازیوں کی وجہ سے) حرام کئے گئے ہیں۔ (ابوداؤد)
امام محی السنہ فرماتے ہیں کہ " وج " کے بارہ میں علماء نے لکھا ہے کہ یہ یعنی وج طائف کے کنارے ایک مقام ہے ، نیز خطابی نے انہا من ناحیۃ الطائف میں انہا کی بجائے انہ لکھا ہے۔

تشریح
علماء لکھتے ہیں کہ مقام وج میں شکار وغیرہ کی حرمت حمی کے طور پر تھی (حمی اس چراگاہ کو کہتے ہیں جس میں دوسروں کے جانور کو چرانے کی ممانعت ہو) چنانچہ مقام وج میں چونکہ غازیوں کے گھوڑوں کے لئے گھاس وغیرہ روکی جاتی تھی اس لئے اس مقام میں شکار کے لئے جانا یا اس کے درخت وغیرہ کاٹنا ممنوع تھا، حدیث کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مقام وج کی مذکورہ بالا حرمت حرم کے طور پر تھی ، اور اگر یہ حرمت حرم ہی کے طور پر تھی تو پھر کہا جائے گا کہ اس حرمت کا تعلق ایک مخصوص زمانہ کے ساتھ تھا جو بعد میں منسوخ ہو گئی تھی۔
امام شافعی اس بات کے قائل ہیں کہ مقام وج میں نہ تو شکار کیا جائے نہ وہاں کے درخت وغیرہ کاٹے جائیں تاہم انہوں نے اس میں ضمان (یعنی بطور جزاء و کفارہ کسی چیز کا واجب ہونا) ذکر نہیں کیا ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں