مدینہ کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعا
راوی:
وعنه قال : كان الناس إذا رأوا أول الثمرة جاءوا به إلى النبي صلى الله عليه و سلم فإذا أخذه قال : " اللهم بارك لنا في ثمرنا وبارك لنا في مدينتنا وبارك لنا في صاعنا وبارك لنا في مدنا اللهم إن إبراهيم عبدك وخليلك ونبيك وإني عبدك ونبيك وإنه دعاك لمكة وأنا أدعوك للمدينة بمثل ما دعاك لمكة ومثله معه " . ثم قال : يدعو أصغر وليد له فيعطيه ذلك الثمر . رواه مسلم
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ لوگوں کا معمول تھا کہ جب وہ کوئی نیا پھل دیکھتے تو اس کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں لاتے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس پھل کو لیتے تو فرماتے، اے اللہ! ہمارے پھلوں میں برکت عطا فرما، ہمارے شہر میں برکت عطا فرما، ہمارے صاع میں برکت عطا فرما (صاع ایک پیمانہ کا نام تھا) ہمارے مد میں برکت عطا فرما (مد بھی ایک پیمانہ کا نام تھا) اور اے اللہ! ابراہیم تیرے بندے تھے، تیرے خاص دوست تھے اور تیرے نبی تھے، اور میں بھی تیرا بندہ ہوں اور تیرا نبی ہوں، ابراہیم نے تجھ سے مکہ کے لئے دعا مانگی تھی (جو اس آیت ( فَاجْعَلْ اَفْى ِدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِيْ اِلَيْهِمْ وَارْزُقْهُمْ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُوْنَ) 14۔ ابراہیم : 37) اور میں بھی تجھ سے مدینہ کے لئے دعا مانگتا ہوں اسی طرح کی دعا جو ابراہیم نے مکہ کے لئے مانگی تھی بلکہ اس کی مانند اور بھی دعا (یعنی ابراہیم نے جو دعا مانگی تھی میں نہ صرف اسی طرح کی دعا بلکہ اس سے بھی دو چند دعا مانگتا ہوں) پھر ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے خاندان کے سب سے چھوٹے بچے کو بلاتے اور اس کو وہ پھل عنایت فرماتے (تاکہ وہ بچہ خوش ہو جائے) (مسلم)
تشریح
" برکت " کے معنی ہیں" زیادہ ہونا " لہٰذا پھل میں برکت کی دعا مانگنے کا مطلب تو ظاہر ہی ہے، البتہ شہر میں برکت کا مطلب یہ ہے کہ شہر میں وسعت ہو، اس میں لوگ کثرت سے آباد ہوں اور اس کی تہذیبی و تمدنی حیثیت مثالی درجہ اختیار کرے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعا اس طرح قبول ہوئی کہ شہر کا رقبہ بڑھا، اس کی آبادی بڑھی، مسجد نبوی کی بھی توسیع ہوئی اور دور دور سے آ کر مسلمان کثیر تعداد میں یہاں آباد ہوئے اور اس کے علاوہ یہ شہر اپنی تہذیبی و تمدنی حیثیت سے بھی مثالی درجہ پر پہنچا! صاع اور مد میں برکت سے مراد یہ ہے کہ رزق میں فراخی ہو۔
حضرت ابراہیم اللہ تعالیٰ کے خلیل ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کے حبیب! اس کے باوجود کہ خلیل سے حبیب کا مرتبہ بڑا ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابراہیم کی اس صفت کو ذکر کیا مگر سبب تواضع و انکسار اپنی صفت کو ذکر نہیں کیا اپنے کو صف اللہ کا بندہ اور اس کا نبی کہنے پر اکتفاء فرمایا۔