مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ حرم مکہ کی حرمت کا بیان ۔ حدیث 1275

مکہ مکرمہ کی فضیلت

راوی:

عن أبي شريح العدوي أنه قال لعمرو بن سعيد وهو يبعث البعوث إلى مكة : ائذن لي أيها الأمير أحدثك قولا قام به رسول الله صلى الله عليه و سلم الغد من يوم الفتح سمعته أذناي ووعاه قلبي وأبصرته عيناي حين تكلم به : حمد الله وأثنى عليه ثم قال : " إن مكة حرمها الله ولم يحرمها الناس فلا يحل لامرئ يؤمن بالله واليوم الآخر أن يسفك بها دما ولا يعضد بها شجرة فإن أحد ترخص بقتال رسول الله صلى الله عليه و سلم فيها فقولوا له : إن الله قد أذن لرسوله ولم يأذن لرسوله ولم يأذن لكم وإنما أذن لي فيها ساعة نهار وقد عادت حرمتها اليوم كحرمتها بالأمس وليبلغ الشاهد الغائب " . فقيل لأبي شريح : ما قال لك عمرو ؟ قال : قال : أنا أعلم بذلك منك يا أبا شريح إن الحرم لا يعيذ عاصيا ولا فارا بدم ولا فارا بخربة . متفق عليه . وفي البخاري : الخربة : الجناية

حضرت ابوشریح عدوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارہ میں منقول ہے کہ انہوں نے عمرو بن سعید سے اس وقت جب کہ وہ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مقابلے پر مکہ کی طرف لشکر بھیج رہے تھے، یہ کہا کہ میرے سردار مجھے اجازت دیجئے کہ میں آپ کے سامنے وہ بات بیان کروں جس کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتح مکہ کے اگلے دن ایک خطبہ کے دوران ارشاد فرمایا تھا ، اس بات کو میرے کانوں نے سنا، میرے دل نے یاد رکھا اور میری آنکھوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وہ بات فرماتے دیکھا ہے! چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور پھر فرمایا کہ مکہ کو اللہ تعالیٰ نے عظمت بخشی ہے، اس کو لوگوں نے بزرگی نہیں دی ہے، لہٰذا جو شخص اللہ تعالیٰ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اس کے لئے حلال نہیں ہے کہ وہ اس شہر میں خونریزی کرے یعنی کوئی مسلمان اس شہر میں کسی کو قتل نہ کرے اگرچہ وہ لائق قتل ہی کیوں نہ اور جو شخص لائق قتل نہ ہو اس کو قتل کرنا ہر جگہ حرام ہے خواہ حرم مکہ کے اندر ہو خواہ اس کے باہر اور یہ حلال ہے کہ اس کی زمین کا درخت کاٹے، اور اگر کوئی شخص اس شہر میں قتل و قتال کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عمل سے (جیسا کہ حدیث نمبر ۳ میں ابن خطل کے قتل کا واقعہ گزرا) جواز پیدا کرے تو اس سے کہو کہ اللہ تعالٰی نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اجازت دے دی تھی اور تم کو اجازت نہیں ہے، چنانچہ مجھے بھی ایک دن کی صرف ایک ساعت کے لئے اس شہر میں قتل کرنے کی اجازت دی گئی تھی اور اب آج کے دن (جب کہ یہ خطبہ دیا جا رہا ہے) اس شہر کی عظمت و حرمت بحالہ ہے جو کل گزشتہ اس مباح ساعت کے علاوہ تھی۔ جو لوگ یہاں موجود ہیں ان کو چاہئے کہ میری اس بات کو ان لوگوں تک پہنچا دیں جو یہاں موجود نہیں ہیں ابوشریح رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا گیا کہ عمرو بن سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ حدیث سن کر آپ سے کیا کہا۔ انہوں نے فرمایا کہ عمرو بن سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھ سے کہا کہ ابوشریح! میں اس حدیث کو تم سے زیادہ جانتا ہوں لیکن سر زمین حرم نافرمان کو پناہ نہیں دیتی اور نہ اس شخص کو پناہ دیتی ہے جو خون کر کے بھاگا ہو یا کوئی تقصیر کر کے فرار ہوا ہو۔ (بخاری ومسلم)
بخاری کی روایت میں الخربۃ کے معنی " قصور" کے ہیں

تشریح
عمرو بن سعید، خلیفہ عبدالملک بن مروان کی جانب سے مدینہ کے حاکم تھے، انہوں نے جب حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو قتل کرنے کے لئے مدینہ سے مکہ کو لشکر روانہ کیا تو حضرت ابوشریح صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کے اس فیصلہ سے بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مذکورہ بالا حدیث بیان کی جس سے ان کا مطلب یہ تھا کہ حرم مکہ میں تو لائق قتل شخص کو بھی قتل کرنے کی اجازت نہیں ہے چہ جائکہ آپ ایک جلیل القدر صحابی کا خون بہانے کے لئے وہاں لشکر بھیج رہے ہیں۔ اس کے جواب میں عمرو بن سعید نے کہا کہ زمین حرم اس شخص کو پناہ نہیں دیتی جو خلیفہ سے بغاوت کر کے نافرمانی کا مرتکب ہوا ہو، گویا عمرو بن سعید کے گمان میں عبدالملک بن مروان، خلیفہ برحق تھا اور حضرت عبداللہ بن زبیر اس کے باغی، حالانکہ عبدالملک بن مروان خلیفہ برحق نہیں تھا کہ اس کی خلافت کا انکار کرنے والے کو شرعی نقطہ نظر سے باغی قرار دیا جاتا، اسی طرح عمرو بن سعید نے یہ بھی کہا کہ اگر کوئی شخص کسی کا خون کر کے حرم میں چلا جائے تو حرم اس کو بھی پناہ نہیں دیتا ایسے ہی اگر کوئی شخص تقصیر کر کے یعنی دین میں فساد کا بیج بو کر یا کوئی دینی جرم کر کے یا کوئی اور قصور کر کے مثلاً کسی کا مال تلف کر کے یا کسی کا حق غصب کر کے بھاگ جائے اور حرم میں پناہ لے لے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس سے درگذر کر لیا جائے! گویا عمرو بن سعید کے جواب کا حاصل یہ تھا کہ عبداللہ بن زبیر ایک گنہگار و نافرمان شخص ہیں کیونکہ انہوں نے خلیفہ کی اطاعت سے انحراف کیا ہے ، اگر وہ زمین حرم سے باہر آ جائیں گے تو وہاں ان کو سزا دی جائے گی اور اگر حرم ہی میں رہیں گے تو ان کو حرم ہی میں سزا دوں گا، چنانچہ ایسا ہی ہوا یعنی زمین حرم ہی میں ان کو شہید کر دیا گیا۔

یہ حدیث شیئر کریں